2 7

کورونا وائرس۔۔ افواہوں سے بچیں

چین اس وقت ایک ناگہانی آفت کی زد میں ہے۔ چین کا شہر ووہان کورونا وائرس سے بری طرح متاثر ہے، کورونا وائرس کی زیادہ تر اقسام زیادہ مہلک نہیں ہوتیں اگرچہ اس کے علاج کیلئے کوئی مخصوص ویکسین یا ڈرگ دستیاب نہیں ہے مگر اس سے اموات کی شرح اب تک بہت کم تھی اور مناسب حفاظتی تدابیر کے ذریعے اس کے پھیلاؤ کو کنٹرول کر لیا جاتا تھا مگر سال2020کے اوائل میں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے چین میں اس وائرس کی ایک نئی مہلک قسم دریافت کی جسے نوول کورونا وائرس یا این کوو کا نام دیا گیا ہے، جس سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ چین کے اس مشکل وقت میں من حیث القوم ہم سب کی یہ بنیادی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم سب پوری قوت کیساتھ چین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں تاکہ چین کو اس نازک وقت میں اپنے دشمنوں کی طرف سے جس منفی اور مذموم پروپیگنڈا کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہے اسے ناکام بنایا جاسکے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق چین میں کورونا وائرس سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد تقریباً 320 تک پہنچ گئی ہے جبکہ تقریباً 14000 افراد میں اس بیماری کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 350 سے زائد افراد تشویشناک حد تک بیمار ہیں۔ دیگر ممالک میں بھی ”کورونا وائرس” کے41سے زائد کیسز ریکارڈ کئے گئے ہیں جن میں تھائی لینڈ، امریکہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔ اب تک کورونا وائرس کے باعث فلپائن میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے جو چین سے باہر ہلاکت کا پہلا کیس ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 44سالہ شخص چین کے شہر ووہان کا شہری تھا جو 38سالہ خاتون کیساتھ 21جنوری کو فلپائن پہنچا تھا۔ یہ مہلک وائرس گزشتہ برس دسمبر میں نمودار ہوا تھا۔ وائرس کے پھیلاؤ سے بچنے کیلئے چین کے اکثر شہروں میں ٹرین سروس مکمل طور پر معطل کر دی گئی ہے اور چین میں سفر کرنے والے تمام افراد کے جسمانی درجۂ حرارت کو باقاعدگی سے چیک کیا جا رہا ہے تاکہ کسی بھی شخص میں وائرس کی موجودگی کا بروقت پتا لگایا جا سکے۔ ”کورونا وائرس” کا سب سے زیادہ شکار چینی شہر ووہان ہوا۔ لہٰذا چینی حکام کی جانب سے ایک کروڑ سے زیادہ آبادی والے شہر ووہان کے رہائشیوں کی شہر سے باہر نقل وحمل پر مکمل طور پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
چین میں ”کورونا وائرس” کی مہلک وباء پھوٹنے کے بعد پاکستان میں ہائی الرٹ جاری کردیا گیا ہے۔ اسلام آباد میں انتظامیہ اس حقیقت سے مکمل طور پر باخبر ہے پاکستانی اور چینی شہری دونوں ممالک میں سفرکرتے ہیں تو یہ مہلک وائرس کسی بھی لمحے یہاں آسکتا ہے۔ چینی وزارت تعلیم کی ایک رپورٹ کے مطابق 15اپریل2019تک تقریباً اٹھائیس ہزار پاکستانی طلبہ چین میں زیرتعلیم تھے۔ چینی وزارت تعلیم کے سرکاری ڈیٹا کے مطابق چین پاکستانی طلبہ کیلئے تعلیم حاصل کرنے کیلئے ترجیح بن چکی ہے تقریباًسات ہزار چونتیس سکالرشپس پر پڑھ رہے ہیں۔2019میں چین میں زیرِ تعلیم طلبہ کے حساب سے پاکستان کا نمبر تیسرا تھا۔ 60ہزار سے زائد چینی شہری پاکستان میں رہائش پذیر ہیں اور ان کی بڑی تعداد پاک چین اقتصادی راہداری میں کام رہی ہے۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ اب تک پاکستان میں کرونا وائرس کا کوئی کیس ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ بظاہر سوشل میڈیا پر چند شرپسند عناصر کی جانب سے ”کورونا وائرس” کے پاکستان میں داخلے سے متعلق افواہیں پھیلائی جارہی ہیں، تاہم حکومت پاکستان نے ان تمام دعوؤں اور افواؤں کی سختی سے تردید کردی ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ”کوروناوائرس” کا کوئی مریض موجود نہیں ہے۔
یاد رہے ”کورونا وائرس” کا تعلق وائرسز کے اس خاندان سے ہے جس کے نتیجے میں مریض بخار میں مبتلا ہوتا ہے۔ یہ وائرس اس سے قبل دنیا میں کہیں بھی اور کبھی نہیں دیکھا گیا۔2003میں چمگادڑوں سے شروع ہونے والا یہ وائرس بلیوں سے مماثلت رکھنے والے جانوروں میں منتقل ہوا اور پھر انسانوں تک پہنچا۔ اس وائرس سے نظام تنفس شدید متاثر ہوتا ہے جبکہ وائرس کی علامات بخار سے شروع ہوتی ہیں جس کے بعد خشک کھانسی ہوتی ہے اور پھر ایک ہفتے کے بعد مریض کو سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ انسانوں میں ”کرونا وائرس” کی افزائش کا دورانیہ ایک سے14 دنوں کے درمیان ہے جس میں کسی شخص کو علامات ظاہر ہوئے بغیر بھی یہ بیماری لاحق ہو سکتی ہے۔ علامات یا میڈیکل ٹیسٹ کے بغیر کسی متاثرہ شخص کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ اسے ”کرونا وائرس” کا مرض لاحق ہے لیکن وہ اس کے پھیلاؤ کا سبب ضرور بن سکتا ہے۔ ”کرونا وائرس” سے بچاؤ کیلئے نہ تو کوئی ویکسین ہے اور نہ ہی کوئی مخصوص علاج ہے۔ ابتدائی اطلاعات کو دیکھتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ متاثرین میں سے صرف ایک چوتھائی ایسے تھے جو شدید متاثر ہوئے اور ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ایسے افراد تھے جو عمر رسیدہ تھے یا جو پہلے ہی سے کسی دوسری بیماری کا شکار تھے۔ چینی حکام نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ وائرس مچھلی منڈی میں ہونی والی سمندری جانداروں کی غیرقانونی خرید وفروخت کے دوران انسانوں میں منتقل ہوا ہو۔ ”کرونا وائرس” سے بچنے کی مندرجہ ذیل احتیاطی تدابیر بتائی گئی ہیں۔ اپنے ہاتھ دھوئیں اور اپنے ناک یا چہرے کو مت رگڑیں، احتیاط کریں اور باہر جاتے ہوئے ماسک پہن کر رکھیں، پرہجوم جگہوں پر جانے سے اجتناب کریں، اگر آپ نے چین کے شہر ووہان کا سفر کیا ہے تو اپنا طبی معائنہ ضرور کرائیں۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام