mushtaq shabab

اب نہیںکوئی بات خطرے کی

آج کے اس پرفتن دور میں جب سیاست پر بھی جذباتیت کے سائے گہرے ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور سیاست روایتی باہمی عزت واحترام سے جان چھڑا کر نئے بیانئے میں ڈھل رہی ہے، مخالفین کو ہر قسم کے منفی القابات سے یاد کرنا اب عام سی بات ہوگئی ہے او وہ جو بزرگ سیاسی رہنمائوں کے طور طریقے تقریباً ترک کر دیئے گئے ہیں ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں کی تفسیر بنے پھر بھی چند دانے ایسے ضرور موجود ہیں جو آج بھی ہر قسم کی سیاسی مخالفت کو دھیمے سُروںمیں بیان کرنے کو اپنا وتیرہ بنار ہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین بھی انہی گنے چنے چند افراد میں سے ہیں جو سیاست میں زبان کے استعمال میں حد درجہ احتیاط کو ملحوظ خاطر رکھے ہوئے بھی بعض اوقات اتنی گہری بات کر جاتے ہیں جس سے نہ کسی کی دل آزاری ہوتی ہے نہ ہی مقصدیت کو نقصان پہنچتا ہے، گزشتہ روز پاکستان الیکٹرک فین مینوفیکچرنگ ایسو سی ایشن کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران حکومت کی جانب سے بجلی کے پنکھوں کو لگژری آئٹم قرار دینے کے معاملے پر چوہدری صاحب نے کیا کمال طنز کیا ہے اور کہا ہے کہ جن لوگوں کے اپنے باتھ رومز میں بھی ایئر کنڈیشنز لگے ہوئے ہیں انہوں نے پنکھوںکو لگژری آئٹم میں شامل کر کے اس پر ٹیکس لگانے کی سوچ اپنالی، چوہدری صاحب نے مزید کہا کہ حکومت کو چاہئے کہ وہ ہینڈ فین کو بھی لگژری آئٹم قرار دے کر بجٹ میں ٹیکس لگانے کی تجویز دے، میر تقی میر نے شاید انہی حالات کو سامنے رکھ کر کہا تھا
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرسے صحبت نہیں رہی
چوہدری صاحب کی بات نے اگرچہ ہمیں ایک اور خوف سے دوچار کر دیا ہے، یعنی یہ جو ہاتھ والے پنکھے(جو ہمارے ہاں مزری سے بنائے جاتے ہیں) بھی کہیں آنے والے کل کو لگژری آئٹم میں واقعی ہی شامل نہ کر دیئے جائیں، اس لئے کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی نے ہر چیز کی قیمت کو پر لگا رکھے ہیں اور مزری سے بنی ہوئی اشیاء جو دستکاریوں کے زمرے میں شمار ہوتی ہیں ان کی قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں، مثلاً چٹائی جو پہلے چالیس پچاس روپے میں مل جاتی تھی اب وہ بھی سینکڑوں میں جا پہنچی ہیں، مزری کے بنے ہوئے چنگیر، ٹوکریاں اور دیگر مصنوعات کی قیمتوں کا جو حال ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے، جبکہ ہاتھ کے بنے ہوئے پنکھوں کی بناوٹ بھی اب تبدیل ہوتی جارہی ہے اور انہیں خوبصورت نقش ونگار والے کپڑوں، ریشوں کی جالیوں، پھندنوں سے سجا کرمہنگے داموں فروخت کیا جاتا ہے اس لئے حکومت کہہ سکتی ہے کہ جب اتنے مہنگے پنکھے لوگ خرید سکتے ہیںتو ان پر ٹیکس عاید کیوں نہ کیا جائے، خیر یہ تو جملہ ہائے معترضہ تھے،بات ہو رہی تھی الیکٹرک فین مینو فیکچرز کی شکایات کی، تو چوہدری صاحب سے یہ بھی گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ صرف اپنے آبائی علاقے کے کارخانہ داروں کی ہی نہ سنیں مسئلے کے دوسرے فریق یعنی حکومت کی مجبوری کو بھی مدنظر رکھیں، جو بجلی سے چلنے والے پنکھوں کو اگر لگژری آئٹم قرار دے کر اس پر ٹیکس لاگو کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے تو حکومتی موقف بھی کچھ غلط نہیں ہے یعنی جس طرح تواتر کیساتھ بجلی کے نرخوں میں آئی ایم ایف کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اضافہ کر کے بجلی عوام کی دسترس سے باہر کرنے کا عمل جاری ہے، اُمید ہے کہ اس حکومت کی مدت ختم ہونے تک بجلی کے پنکھے بھی صرف مالدار لوگ ہی افورڈ کر سکیں گے اور عوام کیلئے یہ بھی لگژری آئٹم بن جائیں گے، اس لئے اگر حفظ ماتقدم کے طور پر بجلی کے پنکھوں کو لگژری آئٹم قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے تو چوہدری صاحب کو حکومت کی ”دوراندیشی” پر اسے داد دینی چاہئے نہ کہ پنکھے بنانے والے صنعتکاروں کے جھانسے میں آکر ان کی شکایت پر اُلٹا حکومت سے شکایت کرنا ضروری قرار دیں، حالانکہ ایسی بات کرنے سے پہلے انہیں حال ہی میں گورنر پنجاب چوہدری سرور کیساتھ بھی بعض لوگوں کی ملاقات کے ہنگام ان کی فریاد کو مدنظر رکھنا چاہئے تھا جب فریادیوں نے رو رو کر اپنی حالت زار بیان کی اور قسمیں اُٹھا اُٹھا کر گورنر پنجاب کو یقین دلایا کہ ان کیساتھ جو ”ظلم” ہو رہا ہے وہ کسی سیاست کے تحت بیان نہیں کیا جارہا ، مگر حکومتی پالیسیوں سے ان کو زندگی گزارنا دشوار ہو چکی ہے وغیرہ وغیرہ، گویا وہ جو اپنی حالت زار بتا رہے تھے اسے شکیل جاذب کے الفاظ میں یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ
تم سے کیا شہر کے حالات کی تفصیل کہوں
مختصر تم کو بتاتا ہوں میاں خیر نہیں
اب چوہدری سرور کے بعد چوہدری شجاعت کے پاس بھی صنعتکاروں کا وفد اپنا رونا روتے ہوئے جن حالات کی نشاندہی کر رہے تھے، اس پر حکومت کیا سوچتی ہے یہ تو نہیں معلوم مگر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے تازہ بیان میں آئی ایم ایف کے پروگرام پر جس طرح تنقید کی ہے وہ قابل توجہ ضرور ہے، بلال بھٹو نے حکومت کو چتاؤنی دی ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پروگرام پر نظرثانی کرے ورنہ مارچ میں احتجاجی مارچ ہوگا، ادھر مولانا فضل الرحمن کے حوالے سے جو خبر آئی ہے اس کے مطابق انہوں نے نیا اتحاد تشکیل دیکر کراچی سے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو 23فروری سے آغاز کیا جائے گا، گویا پیپلز پارٹی سے پہلے نیا 6جماعتی سیاسی اتحاد حکومت مخالف تحریک شروع کرنے جارہا ہے، ویسے پیپلزپارٹی نے جب سے اپنا دیرینہ بیانیہ چھوڑ دیا ہے اس کے جلسے جلوسوں میں وہ رونق نہیں رہی، مقصد کہنے کا یہ ہے کہ ایسے حالات میں پاکستان پیپلزپارٹی ایک خاص نعرہ لگاتی تھی یعنی اگر یہ نہ ہوا، یا حکومت نے ایسا نہ کیا تو پھر ”دمادم مست قلندر” ہوگا۔ اس لئے حکومت کو فکر نہیں کرنی چاہئے کہ بقول شخصے حالات نے سیاسی جماعتوں کو ”بے ضرر” بنا کر اس محاورے کو سچ کردیا ہے کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔ گویا ایک اور محاورے کے مطابق جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں، اسی لئے حکومت کے حق میں راوی چین ہی چین لکھ رہا ہے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے

مزید پڑھیں:  ڈیڑھ اینٹ کی مسجد