musharaf zaidi

شہیدوں کو خراج تحسین پیش کریں

تقریباً ہر ہفتے ہی ہمیں دہشت گردوں کی جانب سے پاکستان میں تباہ کن کارروائیوںکی کوششوں سے متعلق کوئی نہ کوئی خبر ملتی رہتی ہے۔ یہ کارروائیاں زیادہ تر ایسے علاقوں میں کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جہاں پہاڑ اتنے اونچے ہیں کہ وہاں کبھی کبھی سورج کی روشنی نہیں پہنچ پاتی اور جہاں وادیاں اس قدر گہری کہ جہاں دم دیتے، شہادت کا جام نوش کرتے، ہمارے جوانوں کی آخری سانسیں ہمیں سنائی نہیں دے سکتیں۔ میں نے شمالی وزیرستان میں گزشتہ ہفتے شہید ہونیوالے سپاہیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے ٹویٹ کرنا چاہی تو میرے ذہن سے ان کے نام نکل گئے۔ میں نے ان کے نام جاننے کیلئے گوگل کی مدد لینا چاہی تو ایک سیکنڈ کے چوتھائی حصے میں میرے سامنے گوگل نے چودہ لاکھ تیس ہزار کے قریب نتائج لا پیش کئے جن میں سے پہلے تین نتائج اس واقعے سے متعلق تھے جس کی مجھے تلاش تھی۔ نتائج کے مطابق شہید ہونے والوں کی پہچان سپاہی اسد اور سپاہی شمیم کے نام سے ہوئی۔ اس کے علاوہ بھی ماضی قریب میں وقوع پذیر ہونیوالے ایسے واقعات سے متعلق نتائج موجود تھے۔ اس دھرتی کے سپوتوں اور بیٹیوں نے کبھی بھی ملک وقوم کیلئے جان دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
گزشتہ ہفتے پرمولی کی رہائشی شکیلہ اور بکی کی رہنے والی غنچہ صوابی میں شہید کر دی گئیں تھیں۔ ان دونوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ علاقے میں بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلا رہی تھیں۔ ملک بھر میںشکیلہ اور غنچہ جیسی ہزاروں خواتین موجود ہیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز پروگرام سے تعلق رکھنے والی یہ خواتین نوے کی دہائی کے وسط سے ہی صحت عامہ، پیدائش سے متعلق مسائل اور پولیو کیخلاف جنگ میں ہر اول دستے کے طور پر کام کرتی آرہی ہیں۔ ان خواتین نے درحقیقت ہماری زندگیوں کیلئے اپنی جانیں قربان کی ہیں اور یہ اپنے ان بھائیوں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیںجو فضائیہ، بحریہ، بری افواج اور دیگر قانون نافذ کرنے والی فورسز میں رہ کر دنیا کے سب سے مشکل اور پیچیدہ خطے میں امن قائم رکھنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ یہ وہ بستی ہے جہاں کے انداتاؤں کو صرف بھاڑے سے غرض ہے۔ وہ اس بستی کے چھوٹے غنڈوں اور بدمعاشوں کو اپنے جیسا انداتا بننے سے روکنے کیلئے اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ لوگ آپس میں ہی لڑتے مرتے رہیں اور اس لڑائی میں انہیں یہ گمان تک نہ ہو کہ ان کے نام، ان کے مذاہب، ان کے ہیرو، ان کے خداوں اور ان کی جانب سے ہر مقدس سمجھی جانے والی شے کے نام پر انہیں کسی طرح فریب میں رکھا جا رہا ہے۔
یہ شمالی وزیر ستان ہی تھا جس کے بارے میں جنرل شجاع پاشا نے ایک مرتبہ دہشت گردوں کی اقوام متحدہ کی ترکیب استعمال کی تھی، اس ترکیب کو خاصی مقبولیت بھی ملی۔ یہ اسد اور شمیم جیسے بیٹوں اور شکیلہ اور غنچہ جیسی بیٹیوں کی قربانیوں کے طفیل ہی ممکن ہو سکا کہ ہم نے2014تک دہشت گردی کا گڑھ رہنے والے وزیرستان کو دہشت گردوں سے آزاد کرایا۔ یہاں ہفتے کو بنوں میں شہید کر دئیے جانے والے ایس ایچ او عبدل حمید مروت کو بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں جو ان کی قربانی، شجاعت اور دلیری کا احسان اُتار سکے مگر مجھے یہ بتایئے کہ شمالی وزیرستان کو کس لئے خالی کرایا گیا تھا؟ کیا اسے اس کے اپنے باسیوں کیلئے ہی دہشت گردوں کے چنگل سے آزاد نہیں کرایا گیا تھا؟ کیونکہ خدا جانتا ہے اب میںاور آپ تو میران شاہ منتقل ہونے سے رہے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ وہاں ایسا کچھ نہیں جس کیلئے ہم یہاں موجود سہولیات کو چھوڑ کر جانا چاہیں۔ ہماری افغان سرحدسے متعلقہ علاقے اور چترال سے لیکر چمن تک کا سارا خطہ پچھلی چار دہائیوں سے جنگ کے سائے تلے پل رہا ہے۔ یہ تو میں نے ان علاقوں کے نام لئے جہاں پر حملہ آوروں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر ان علاقوں کا کیا ہوگا جہاں ایسا نہ ہو سکا؟ اور اس سارے عمل میں ان لاتعداد انسانی کوتاہیوں کا حساب کون کریگا جو اتنے عرصے میں سرزد ہوئیں اور ان تما م خوابوں کا حساب کون دے گا جو ٹوٹ کر بکھر گئے اور اس مستقبل کا کون ذمہ دار ہے جو تباہ ہو چکا؟ یہ وہ سوال ہیں جن کے جوابات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں اور جب تک ان سوالوں کا جواب نہ ملا تب تک ان لوگوں،جن کیلئے یہ جنگ لڑی گئی اور ان لوگوں جنہوں نے اس کی حمایت اور قیمت ادا کی میںخلیج وسیع تر ہوتی جائے گی۔
پاکستان میں شہریوں کی اوسط عمر تئیس برس کے لگ بھگ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری آدھے سے زیادہ آبادی1998کے ایٹمی حملوں کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ یہ دس کروڑ لوگ جو آج سکون اور تحفظ کی نیند سوتے ہیں، نہیں جانتے کہ یہ سکون کی نیند انہیں اسی ایٹمی طاقت اور ملک کے محافظوں کے سبب ہی میسر آتی ہے، یہ بات درست ہے کہ 1998 کے بعد پاکستان کے بیشتر علاقے جنگ زدہ ماحول کا شکار رہے ہیں اور دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی یہاں مکمل طور پر امن بحال نہیں ہو پایا۔یہ ملک اپنے فوجیوں اور اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔ مگر ان تمام تر قربانیوں کے بعد بھی اگر میرانشاہ جیسے علاقوں میں ہم امن اور آزادی کی فضاء قائم کرنے میں ناکام ہو گئے تو اس سب کا کیا فائدہ ہوا؟اگر اس عمل کو کسی بھی طرح متنازعہ کیا جائے یا ریاست سے کچھ سوال پوچھے جائیں تو بجائے کسی پر غداری کا فتویٰ لگانے کے، ہمیں ان خدشات کو دور کرنے کی طرف قدم بڑھانا ہوگا اور ان تمام ترقیاتی کاموں کیلئے مزید سنجیدگی دکھانا ہوگی جو ہم میرانشاہ جیسے علاقوں میں ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے