logo 2

مشرقیات

حضرت سیدنا یوسف بن حسین سے مروی ہے :” ایک دفعہ حضرت سیدنا ذوالنون مصری محفل میں جلوہ گر تھے۔ آس پاس معتقدین ومحبین کا ہجوم تھا ۔ اس بابرکت محفل میں اولیائے کرام کا ذکر خیر ہورہا تھا ۔ حضرت ذوالنون مصری لوگوں سے اولیا ئے کرام کی کرامت سن رہے تھے ۔ حضر ت ابراہیم بن ادہم کا ذکر ہونے لگا ۔ لوگوں نے کہا : آپ کو رب تعالیٰ نے بہت سی خوبیوں سے نواز ا تھا ، آپ سے بہت سی کرامات کا صدور ہوا ۔ ایک مرتبہ آپ چند رفقا ء کے ساتھ کسی پہاڑ پر بیٹھے تھے کہ آپ کے ایک رفیق نے کہا : ” فلاں بزرگ کی بڑی شان ہے ، وہ اپنے چراغ میں تیل کے بجائے پانی ڈالتے ہیں اور ان کا چراغ پانی سے جلتا ہے اور ساری رات جلتا رہتا ہے ۔ ”
یہ سن کر حضرت سیدنا ابراہیم بن ادہم نے فرمایا :” اگر خدا کا مخلص و صادق بندہ کسی پہاڑ کو حکم دے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیتا ہے ۔ ” اتنا کہنے کے بعد آپ نے پہاڑ کو ٹھو کر ماری تو یکا یک پہاڑ حرکت میں آگیا ، یہ دیکھ کر آپ کے رفقا ء خوف زدہ ہوگئے ۔ آپ نے دوبارہ پہاڑ کو ٹھوکر ماری اور فرمایا :”اے پہاڑ ساکن ہو جا ، میں نے تو اپنے ساتھیوں کو سمجھا نے اور مثال بیان کرنے کے لئے تجھے ٹھوکر ماری تھی ، اب ساکن ہو جا ۔ ” چنانچہ پہاڑ فوراً ساکن ہو گیا ۔ جب لوگوں نے حضرت سیدنا ذولنون مصری کی بارگاہ میں حضرت سید نا ابراہیم بن ادہم کی یہ کرامت بیان کی تو آپ نے فرمایا : ” اگر خدا کا بندہ یقین کامل کے ساتھ دیوار سے کہے کہ ہمیں کھجوریں کھلا تو خدا اس پر قادر ہے کہ وہ اپنے بندے کو دیوار سے تازہ کھجور یں کھلادے ۔ ” یہ کہنے کے بعد آپ نے دیوار پر اپنا دست مبارک ماراتو دیوار سے تازہ کھجوریں گرنا شروع ہوگئیں ۔ لوگوں نے پہلی مرتبہ ایسی کھجوریں کھائیں جو درخت سے نہیں ، بلکہ ایک ولی کی کرامت سے دیوار سے حاصل ہوئیں ۔
یہ منظر دیکھ کر حضرت ذوالنون مصری مغموم ہوگئے اور خدا کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے : ”اے میرے پاک پروردگا! میں اس بات سے تیری پناہ چاہتا ہوں کہ تو مجھ پر ناراض ہو ، مجھے اپنی ناراضی سے ہمیشہ محفوظ رکھنا ، کبھی بھی مجھے سے ناراض نہ ہونا ۔ ”ایک دفعہ ابراہیم بن ادہم شکار کے لئے باہر جنگل گئے ۔ ہا تف غیبی نے آواز دی : اے ابراہیم تو اس کام کے لئے پیدا نہیں کیا گیا ۔ آپ یہ آواز سنتے ہی متنبہ ہوئے ، تمام مشاغل کو ترک کر دیا ، طریقت کی راہ اختیار کی اور حصول طریقت پر سختی سے کا ربند ہوگئے ، مکہ مکرمہ تشریف لے گئے ۔ وہاں حضرت سفیان ثوری ، حضرت فضیل بن عیاض اور حضرت ابو یوسف غسو لی سے استفادہ کیا اور ان حضرات کی خدمت میںکچھ وقت گزارا ۔ مکہ مکرمہ سے کچھ عرصہ کے لئے ملک شام کا رخ کیا اور وہاں رزق حلال کے حصول کے لئے مصروف کا ر ہوئے ۔ آپ باغات کی نگہبانی کر کے رزق حلال کماتے تھے ۔
(تذکرة الاولیا جلد 1، ص ، 85فارسی )

مزید پڑھیں:  برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر؟