2 18

صوبے کے حقوق بارے وزیراعلیٰ کا عزم

وزیراعلیٰ محمود خان نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ صوبائی حقوق کے حصول میں کوئی رکاوٹ برداشت نہیں کریں گے، اس کیلئے آخری حد تک جائیں گے۔ اگر وزارت اعلیٰ کو چھوڑنا پڑا تو اس سے بھی دریغ نہیں کریں گے،انہوں نے کہا کہ وفاق نے صوبے کا حق دینے سے انکار نہیں کیا اور وزیراعظم اس حوالے سے انتہائی مخلص ہیں۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کا صوبائی حقوق کے حوالے سے جذباتی انداز اختیار کرنا اورقربانی کا عندیہ قابل قدر جذبہ ہے، وزیراعظم کے اخلاص پر بھی شبہ اس لئے ممکن نہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت کی بنیاد خیبرپختونخوا کے عوام کی رائے سے ہی مضبوط ہوئی ہے لیکن عملی طور پر اٹھارہ ماہ کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے ایسے قابل ذکر اقدامات نظر نہیں آتے جس سے بجلی کے خالص منافع اور قبائلی اضلاع کے عوام کیلئے این ایف سی ایوارڈ میں تین فیصد حصہ دیا گیا ہو۔ وفاق اس سو ارب روپے کی فراہمی کا بھی بندوبست نہیں کرسکا ہے جس کا قبائلی اضلاع کے عوام کو عندیہ دیا گیا تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم میں پوری ہم آہنگی اور وزیربرقیات وآبی وسائل کی کوششوں کے باوجود صوبے کے حقوق کے حصول کیلئے صوبائی حکومت کی تنہا کوششیں کافی نہیں، تمام موافق صورتحال کے باوجود اب تک مسئلے کا حل سامنے نہ آنا اس امر پر دال ہے کہ صوبائی حقوق کے حصول کیلئے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صوبے کے حقوق کے حصول کیلئے وزارت اعلیٰ کی قربانی مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی اس کی نوبت آنی چاہئے۔ ہمارے تئیں وزیراعلیٰ کو اپنی کوششوں کو مؤثر اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے وفاقی حکومت میں شامل خیبرپختونخوا کے مقتدر شخصیات کیساتھ ساتھ صوبے میں حزب اختلاف اور عوامی نمائندوں کو اس ایک نکاتی ایجنڈے پر اعتماد میں لیتے ہوئے ہم آہنگی کی فضا میں صوبے کے حقوق کا معاملہ وزیراعظم سمیت دیگر وزارتوں کے سامنے رکھنا چاہئے۔ صوبے کے حقوق کے مطالبے کی حد تک صوبے کی سیاسی جماعتوں عمائدین اور عوام میں کوئی اختلاف نہیں یہ حکومت، حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں اور عوام سب کا متفقہ مطالبہ ہے۔گورنر خیبرپختونخوا اور وزیراعلیٰ دونوں کو اس حوالے سے ایک نمائندہ جرگہ تشکیل دے کر باہم مشاورت سے اسلام آبادسے رجوع کرنا چاہیے اگر حکمران کسی مصلحت کی وجہ سے ایسا مناسب نہیں سمجھتے تو پھر نمائندہ جرگہ کے ذریعے صوبے کے حقوق کی سعی کی راہ اختیار کرنی چاہئے۔
کالجوں اور جامعات میں اساتذہ کی کمی
خیبرپختونخواکے مختلف اضلاع بشمول پشاور میں پوسٹ گریجویٹ، گریجویٹ اور ڈگری کالجز میں ٹیچنگ کیڈرکی بارہ سو آسامیوں کے عرصہ دراز سے خالی ہونے سے کالجوں کے معاملات کیسے چل رہے ہیں اور طلبہ کی تدریس کا کیا عالم ہے اس کا اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ بی ایس کے کورس کی تکمیل اور طلبہ کو معیاری تعلیم دینے کیلئے صرف اساتذہ کی گنجائش کا پورا ہونا بھی کافی نہیں بلکہ متعارف مضمون میں مہارت رکھنے والے اساتذہ کی ضرورت ہے جسے کوئی بھی لیکچر راور پروفیسر کلاس لیکر پوری نہیں کرسکتا۔ تاخیر کی وجوہات جو بھی ہوں اس سارے معاملے میں سب سے متاثر ہونے والے فریق طلبہ ہیں۔ بیروزگاری کے عالم میں اسامیاں موجود ہونے کے باوجود اساتذہ کی عدم تقرری قابل نوجوانوں کی حق تلفی ہے جبکہ اگلے گریڈ میں ترقی سے اساتذہ کو محروم رکھنا ان کی حق تلفی ہے۔ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو کالجوں اور جامعات دونوں میں اساتذہ کی خالی آسامیوں کو جلد سے جلد پر کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرلینے چاہئے۔ تاخیر کی وجہ اگر پبلک سروس کمیشن کا عدم فعال نظام ہے تو پھر ایک ٹیسٹ کا انعقاد کر کے عارضی بنیادوں پر میرٹ پر آنے والے نوجوانوں کا تقرر کیا جائے تاکہ طالب علموں کو اساتذہ میسر آئیں۔توقع کی جانی چاہئے کہ سرکاری جامعات اور کالجوں میں اساتذہ کی خالی آسامیوں کو پر کرنے میں مزید تاخیر کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گانیز حکومت کی جانب سے فنڈز کی فراہمی بھی یقینی بنائی جائے گی ۔
جائز عوامی مطالبات پر احتجاج کی نوبت کیوں؟
کرک میں گیس سے محرومی اور دیگر مسائل بارے احتجاج کے طور پر سڑکوں پر نکل آنا علاقے کے عوام کی جانب سے حکام کو مسائل کے حل میں وعدے کے باوجود تاخیر کا احساس دلانے کی حد تک تو درست عمل ہے مطالبات کے برحق ہونے اور ان کی حمایت کے باوجود ہم اس امر کو نامناسب قدم سمجھتے ہیں کہ دھمکی آمیز لب ولہجہ اختیا ر کیا جائے جس سے قانون کو ہاتھ میں لینے کا تاثر پیداہو۔اس بارے دوسری رائے نہیں کہ کرک کے عوام بنیادی سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں، آبنوشی جیسی بنیادی ضرورت بھی میسر نہیں، علاقے میں گیس کی پیداوار کے باوجود خود کر ک کے عوام کو خواہ وجوہات جو بھی ہوں محروم رکھنے کی کوئی گنجائش نہیں۔ مظاہرین کی جانب سے مسائل کی نشاندہی اور ان کے حل کے مطالبات میں سے کوئی بھی مطالبہ ایسا نہیں جو عوامی ضرورت اور حکومت کی ذمہ داری نہ ہو،ان کے مطالبات ایسے پیچیدہ، لاینحل اور بھاری فنڈز پر بھی مبنی نہیں کہ حکومت کو ان کیلئے وسائل کا بندوبست کرنے کی ضرورت پڑے۔ علاقے کے ترقیاتی فنڈز کو عوامی ضرورتوں کے جائز اور بنیادی ضرورت کو مقدم رکھ کر استعمال کیا جائے تو ان مسائل کے حل میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟