5 17

بیٹی کسی غریب کی فاقہ سے مرگئی

آج پاکستان سمیت ساری دنیا میں سماجی انصاف کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ ہر سال فروری کے مہینے کی بیس تاریخ کو عالمگیر سطح پر اس دن کو منانے کا آغاز فروری2009میں ہوا جبکہ اس دن کو عالمی سطح پر منانے کیلئے نومبر2007میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد منظور کرتے ہوئے ہر سال فروری کے مہینے کی20تاریخ کو منانے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر دنیا بھر میں سماجی انصاف سے متعلق تقاریب منعقد کی جاتی ہیں’ جن میں دنیا کے مختلف معاشروں میں انصاف کے تقاضوں کو اُجاگر کرنے اور وہاں کے شہریوں کیساتھ روا رکھی جانے والی اونچ نیچ کی زیادتیوں کیخلاف آواز اُٹھائی جاتی ہے، ریلیاں نکلتی ہیں سیمینار منعقد ہوتے ہیں، مذاکرے مناظرے اور اس نوعیت کی ہر وہ تقریب منعقد کی جاتی ہے جس میں نہ صرف سماجی انصاف کی اہمیت کو اُجاگر کیا جاتا ہے بلکہ کرۂ ارض پر جہاں کہیں بھی سماجی ناہمواری نظر آتی ہے اس کیخلاف واویلا برپا کیا جاتا ہے۔ ظلم اور زیادتی کیخلاف شور اُٹھتا ہے تاکہ اس حوالہ سے عالمی شعور کو بیدار کیا جاسکے۔ جس طرح کرۂ ارض پر زندگی کی مستعار سانسیں گننے والے ہر انسان کو انسانی حقوق حاصل ہیں اس طر ح ہر سماج کو سماج کے اندر اور سماج کے باہر مل جل کر زندہ رہنے کیلئے سماجی انصاف کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان یا بنی آدم کے متعلق دنیا بھر کے دانشوروں نے متفقہ طور پر فیصلہ دیدیا ہے کہ وہ سماجی جانور ہے یعنی مل جل کر اور سماج بنا کر رہنا پسند کرتا ہے۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
ہر فرد قوم ملت یا سماج سے علیحدہ ہوکر اپنی شناخت کھو دیتا ہے۔ اسے جدائی اور تنہائی کی سزا بھگتنی پڑتی ہے اور وہ تن تنہا یا اکیلا ہوکر بڑی مشکل سے جی پاتا ہے کیونکہ اکیلا رہ جانے سے وہ ان سہولتوں اور مراعات سے محروم ہو جاتا ہے جو اسے ایک سماج میں رہ کر سماج کے دوسرے ساتھیوں یا بھائی بندوں کی وجہ سے میسر آتی ہیں۔
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں؟
انسان انسان کا ہمدرد اور غم خوار ہوتا ہے۔ دکھ درد میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا یا کسی مشکل گھڑی میں کسی کے کام آنا اچھے انسانوں کی فطرت میں شامل ہے،
ہیں جہاں میں وہی لوگ اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
لیکن جس وقت ہم اپنے چہار سو پھیلی معاشرتی اور سماجی ناہمواریوں پر نظر ڈالتے ہیں تو مولی اکھاڑے کھڈے ہی کھڈے نظر آتے ہیں۔ ہمیں قدم قدم پر نہ صرف سماجی ناانصافیوں سے پالا پڑتا ہے بلکہ ہر روز ان ناانصافیوں کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہمارے سماج کا ہر فرد ایک دوسرے کو اُلٹی چھری سے ذبح کر رہا ہو۔ یہ چور بازاری، ذخیرہ اندوزی، ناجائز منافع خوری، دھونس دھمکیاں، لوٹ کھسوٹ اور اس قسم کی کتنی قباحتیں ہیں جو ہمارے سماج کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم سب عادی ہوچکے ہوں ایسے ظلم ستم اور زیادتیوں، معاشرتی اور سماجی ناہمواریوں کے جو گلا کاٹنا چاہتا ہے ہم اس کے آگے اپنا گلا رکھ دیتے ہیں۔ جب عالمی سطح پر سماجی انصاف یا انسانی حقوق کا عالمی دن منانے کا شوشا چھوڑا جاتا ہے تو ہمیں بھی اس بات کا احساس ہونے لگتا ہے کہ کتنے محروم ہیں ہم اپنے سماج میں رہ کر بھی سماجی انصاف کے حق سے۔
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
اگر یہ بات درست ہے تو ہم کو اس وقت تک ملک اور ملت کی تعمیر وترقی کے متعلق سوچنا بھی نہیں چاہئے جب تک ہم ہر فرد کو ملت کے مقدر کا ستارہ سمجھ کر اس کو برابری کا حق نہیں دیتے، کل ہی کی بات ہے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوئترس پاکستان کے چار روزہ دورے پر آئے اور انہوں نے افراد کے درمیان پائی جانے والی عدم مساوات کا رونا روتے ہوئے کہا کہ بہت مشکل ہے اس مسئلہ کو حل کرنا، اگر اتنا ہی مشکل ہے تو آپ انسانی حقوق کا عالمی دن مناتے کیوں ہیں؟ صرف تقریریں کرنا اور عالمی دن منانے سے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا، کہنے دیجئے کہ آپ کیش کر رہے ہیں غریبوں اور لاچاروں کی غربت، تجوریاں بھرنے والے حرص وہوس کی دوڑ میں مگن ہیں، ان کو کیا پڑی ہے کہ کس نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہے اور کون بھوکا سویا ہے، ان کو تو بس ذخٰیرہ اندوزی اور دھن دولت جمع کرنے کی فکر لاحق ہے۔
گندم امیر شہر کی ہوتی رہی خراب
بیٹی کسی غریب کی فاقہ سے مرگئی
یہ سماجی ناانصافی نہیں تو اور کیا ہے جو کسی غریب کے آنگن میں کھلنے والے ننھے پھول اور کلیوں جیسے بچوں کو اسکول جاکر پڑھنے لکھنے کی بجائے محنت مشقت اور چائلڈ لیبر کے کٹھن مرحلے طے کر کے روزی روٹی پیدا کرنے پر مجبور کردیتی ہے،
وہ کون ہے جو انہیں کھیلنے نہیں دیتا
یہ کم سنی میں جو روزی کمانے لگتے ہیں
آسمان سے باتیں کرنے والے محل کوٹھیاں اور پلازے تعمیر کرنے والے ہل من مزید کی گردان رٹتے رہتے ہیں جبکہ غریب اپنی کٹیا کے دروازے پر ٹاٹ کا پردہ لٹکا کر چادر اور چاردیواری کا بھرم رکھنے کی ناکام سی کوشش کرتا رہتا ہے، جب تک ہم اپنے سماج سے غربت اور بیروزگاری کا خاتمہ نہیں کرپاتے، ہم خالی خولی دن مناکر، ریلیاں نکال کر اور تقریریں کرکے سماج میں عدل وانصاف لانے کا دعویٰ نہیں کر سکتے۔
اسلم بڑے وقار سے ڈگری وصول کی
اور اس کے بعد شہر میں خوانچہ لگا لیا

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟