3 18

نیش عقرب نہ از رہ کیں است

اہل مغرب کے اپنے مخمصے ہیں، انہیں چھوٹی اقوام سے زیادہ جانوروں وغیرہ کا غم زیادہ ہوتا ہے، مغربی دنیا میں رہ کر آنے والوں یا وہاں مستقل طور پر مقیم غریب ملکوں کے باشندوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ یہ لوگ اپنے پالتو جانوروں خصوصاً کتوں اور بلیوں کو دیگر غیرمغربی بلکہ غریب اقوام پر جو ترجیح دیتے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے، تاہم اس پر بات کرنے سے پہلے تازہ ترین ایک سروے پر نظر ڈالتے ہیں جس سے ان قوموں کی انسانوں سے بے حسی کا پتہ چلتا ہے۔ رٹگرز یونیورسٹی کی ایک ٹیم کے حالیہ مطالعہ میںبتایا گیا ہے کہ سمندری حیات ونباتات کے ایٹمی جنگ کی صورت میں تیزاب زدہ ہونے کا خدشہ ہے جس سے سمندری زندگی اور جاندار شدید متاثر ہوں گے جس کے ماحولیات پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ متعلقہ تحقیقاتی ایجنسی نے یہ تجزیہ پاک بھارت کے درمیان (خدانخواستہ) ممکنہ ایٹمی جنگ کی صورت میں سمندروں پر کیا گزرے گی کے سوال پر مطالعے کے دوران فرضی طور پر کیا۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ ایسی صورت میں سمندروں میں تیزاب کی سطح تیزی سے بڑھ جائے گی، کیمیائی ہیئت تبدیل ہو جائے گی،ماحولیات پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ حافظ نے کہا تھا
زقسمت ازلی چہرہ سیاہ بختاں
بہ شست وشوئی نہ گردو سفیدایں مثل است
یعنی جو پیدائشی کالے ہوتے ہیں وہ چہرہ دھونے دھلانے سے سفید نہیں بن سکتے،گویا کوے کو دھو دھلا کر بگلا نہیں بنایا جا سکتا۔اب یہی دیکھ لیجئے کہ رٹگرزیونیورسٹی کے ماہرین کو یہ فکر تو لاحق نہیں ہے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور بھارت کے مابین ایٹمی جنگ ہوتی ہے تو اس سے کتنے لاکھ یا کروڑ انسان متاثر ہوں گے، مرنے والوں کی تعداد کتنی ہوگی، شدید طور پر متاثرین کی کتنی بڑی تعداد ہوں گی جو اپنے اپنے معاشروں کیلئے مستقل عذاب بن جائیں گے، جن شہروں پر ایٹمی ہتھیار قہر کی صورت برسیں گے وہاں کے انسانوں کیساتھ وہاں کی آب وہوا اور ماحولیات پر کیا کیا اثرات مرتب ہوں گے اور کتنی مدت تک لاکھوں کروڑوں انسانوں کی بربادی کیساتھ ساتھ یہ علاقے بانجھ پن کا شکار ہوں گے کیونکہ بہرحال دونوں جانب کسی مغربی باشندے کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا، متاثر ہوں گے تو صرف مسلمان،ہندویاپھر سکھ اقوام کیساتھ دیگر چھوٹی اقوام جن کے مذاہب کا بھی اہل مغرب کے مذاہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اسلئے اگر ان مذاہب کے افراد پر اُفتاد پڑتی ہے تو ان کی بلا سے، انہیں فکر ہے تو سمندری حیاتیات، ماحولیات کا، مگر انہیں یہ احساس نہیں کہ پاکستان بھارت کے مابین خدانخواستہ ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو اس کے نتائج فضائی آلودگی کی صورت میں رفتہ رفتہ سفر کے دوران خود مغربی دنیا پر بھی آنے والے پندرہ بیس سال میں مرتب ہو سکتے ہیں جیسا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران لامحدود اسلحہ کے استعمال کے بعد دنیا بھر میں چند برس بعد ایک نئی بیماری ایفلواینزا نے عام لوگوں کو متاثر کیا تھا۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ عالمی سطح پر ایٹمی جنگ (خواہ کسی بھی جگہ ہو) کو رکوانے کیلئے محولہ خطرات کو واضح کر کے سفارشات کریں مگر سروے سے ایسی کسی بات کی جانب اشارہ دکھائی نہیں دیتا، بلکہ انسانوں کی بے توقیری کے مقابلے میں صرف سمندری حیاتیات وماحولیات کو زیربحث لا کر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، اس میں متعلقہ ماہرین کا قصور بھی نہیں ہے کیونکہ ان کا عمومی رویہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے حوالے سے اس قدر معاندانہ ہے کہ اگر دنیا بھرمیں کہیں بھی مسلمان مرتے ہیں تو ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی بلکہ اُلٹا ان کے ہاں جانوروں کے مقابلے میں مسلمانوں کی کوئی قدر نہیں ہے، یہ اپنے کتوں، بلیوں اور دیگر جانوروں کو (کم از کم) مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ اہمیت دیتے ہیں، ایسی بے شمار فلمیں آپ نے دیکھی ہوں گی جو مہماتی کہانیوں پر مبنی ہوتی ہیں، ان میں جب یہ لوگ کتے، بلیاں اپنے ساتھ لیجاتے ہیں تو ان کو بحفاظت واپس لانے کیلئے بے پناہ جدوجہد کرتے ہیں، مگر دنیا بھر کے مسلمانوں کیخلاف ان کی ریشہ دوانیاں صاف دکھائی دیتی ہیں، فلسطین اور کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے ان کی وجہ سے ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی، کوئی مرتا ہے یا جتیا ہے، ان کی بلا سے، مگر مغربی دنیا میں کتوں اور بلیوں کیلئے مخصوص خوراک پر کھربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں، ان جانوروں کیلئے نت نئے ذائقے سے مزین بسکٹ وغیرہ کے ریسرچ اور پھر ان کو بنا کر ان جانوروں کو مستفید کرنے کیلئے بھی اربوں ڈالر خرچ کئے جاتے ہیں، دوسری جانب یہ اپنی دفاعی انڈسٹری کو فروغ دینے کیلئے کھربوں خرچ کر دیتے ہیں تاکہ ان کے تباہ کن ہتھیار اور گولہ بارود بکتے رہیں، جس سے زیادہ تر ان کے ”دشمن” قومیں ایک دوسرے کو مارتے رہتے ہیں، یعنی لاکھوں انسان ہر سال موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جن کی انہیں ذرہ بھر پرواہ نہیں ہوتی، اُلٹا یہ دنیا بھر میں جانوروں کے تحفظ کے علمبردار بن کر لوگوں کو انسانیت کا درس دیتے رہتے ہیں۔
نیش عقرب نہ از رہ کیں است
مقتضائے طبیعتش ایں است
یعنی بچھو کسی عناد اور دشمنی کی وجہ سے ڈنک نہیں مارتا، ڈنک مارنا تو اس کی فطرت ہے۔آج کل ویسے بھی پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر کے تنازعے پر صورتحال خاصی پیچیدہ ہوتی جارہی ہے، بھارت ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے، مگر اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی منقا ر زیر پر ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں ایٹمی قوتوں کے درمیان تعلقات کی بہتری کیلئے کوششیں کی جائیں نہ کہ دونوں کے مابین کشیدگی کو ہوا دیکر معاملات کو بگاڑا جائے اور انسانوں کے مقابلے میں سمندری ماحولیات پر تشویش کا اظہار کیا جائے۔
وہ سربام چڑھے زلف کا پردہ لیکر
ہم قیامت کے نظر باز تھے پہنچان گئے

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ