4 27

آلوؤں کی حق تلفی

یوں تو دنیا میں انسانی حقوق’ جانوروں کے حقوق کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں تنظیمیں کام کر رہی ہیں لیکن اب تک سبزیوں کے حقوق کی کوئی تنظیم سامنے نہیں آئی۔ نہ جانے اہالیان مغرب کو’ جو ہر ایرے غیرے کے حقوق کیلئے برسرپیکار ہو جاتے ہیں اور خاص طور پر جب یہ حق تلفی کسی مسلم یا پسماندہ ملک میںہو رہی ہو’ کیوں سبزیوں کے حقوق کے بارے میں تنظیم بنانے’ کانفرنسز’ سیمینار اور ریلیوں کے انعقاد کا خیال نہیں آیا۔ یقینا یہ اہالیان مغرب کی بہت بڑی کوتاہی ہے کہ وہ جو کتوں اور بعض ایسے جانور جنہیں مسلمان سخت ناپسند کرتے ہیں اور اُن کا نام تک زبان پر لانے کو برا خیال کرتے ہیں’ کے حقوق کی بات کرتے ہیں’ مگر اتنی غذائیت سے بھرپور’ آپ کو خوراک مہیا کرنے کے علاوہ آپ کی جسمانی طاقت اور خوبصورتی میں اضافہ کرنے والی سبزیوں کے حقوق کیلئے آج تک کچھ نہیںکر سکے ہیں۔پہلے پہل تو ہم بھی سبزیوں کے حقوق کے قائل نہ تھے لیکن حالیہ دنوں ایک سبزی کی ہونے والی سخت ترین حق تلفی کے بعد یہ خیال گزرا کہ سبزیوں کے حقوق کی بھی کوئی تنظیم ہونی چاہئے۔قصہ کچھ یوں ہے کہ دوپہر کا وقت تھا’ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے کھانے کا وقت نہ ملا تو سوچا کہ کیوں نا سموسے پکوڑے سے ہی پیٹ کی اس آگ کو کسی طور ٹھنڈا کیا جائے۔ کارنر فوڈ پر پہنچ کر ریٹ معلوم کرنے کیلئے پوچھا ”بھئی سموسے کس طرح درجن دے رہے ہو؟” جواب ملا کہ کونسے!! آلو والے یا سبزی والے؟ یہ سن کر دھچکا سا لگا کہ کیا آلو سبزی میں شامل نہیں۔ خیر سموسے کے ریٹ جاننے کے بعد پکوڑوں کے بارے میں جب سوال کیا تو پھر وہی جواب آیا: ”کونسے!! آلو والے یا سبزی والے؟” آلو کی اس بے حرمتی پر کچھ بے چینی سی محسوس ہوئی اور کارنر فوڈ پر پکوڑے اور سموسے تلنے میں مصروف شخص سے استفسار کیا: کیوں بھئی آلو سبزی نہیںہے کیا؟ آپ نے تو اسے سبزیوں کی فیملی سے ہی بے دخل کر دیا ہے۔ بیسن سے لتھڑے ہاتھوں کے کناروں سے ناک کھجاتے ہوئے اس شخص نے جواب دیا: ”صاحب جی! آلو اور چیز اور سبزی اور چیز ہوتی ہے آپ سمجھتے کیوںنہیں”ہم نے اُسے بتایا کہ ہمیں تو شروع سے یہی پڑھایا اور سکھایا گیا کہ آلو سبزی ہے’ لیکن آج آپ نے یہ انکشاف کیا کہ آلو اور سبزی دو مختلف چیزیں ہیں۔ آپ کے اس آگاہ کرنے پر آپ کے شکرگزار ہیں کیونکہ ہمارا تو یہ ماننا ہے کہ جو آپ کو ایک لفظ بھی سکھائے وہ آپ کا اُستاد ہے اور اس کی تکریم آپ پر لازم ہے۔ بہرحال آلو کی اس ”تکذیب” پر دل بہت خفگی سی محسوس کر رہا تھا اور بار بار ذہن میں یہی خیال آرہا تھا کہ آلوؤں کے حقوق کے حوالے سے ضرور آواز اُٹھائی جائے گی۔خیر شام کو سبزی کی خریداری کیلئے اتوار بازار کا رخ کیا۔ دکانداروں نے گاہکوں کو متوجہ کرنے کیلئے سبزیاں بڑے سلیقے سے سجا رکھی تھیں اور ہر دکاندار مختلف الفاظ میں اپنی تھڑے پر موجود سبزیوں کی خوبیاںگنوا رہا تھا۔ لال لال ٹماٹر’ تازہ گوبھی’ تیز ہری مرچ’ مٹھے بینگن اور اس طرح کی دوسری کئی صدائیںسنائی دے رہی تھیں۔ یہاں بھی آلو کیساتھ سوتیلوں والا سلوک کیا جا رہا تھا اور اس کا کہیں نام نہیں لیا جا رہا تھا۔ دکاندار کد’ فراشبین’ پالک سمیت دوسری سبزیوں پر بار بار پانی کے چھینٹے مار رہے تھے تاکہ وہ تازہ دکھائی دیں لیکن آلو بے چارے تھڑے کے اطراف میں اوندھے منہ رکھی گئی ادھ کھلی بوریوں سے باہر نکل کر زمین پر بکھرے پڑے تھے اور مٹی سے ایسے اٹے ہوئے تھے کہ جیسے ابھی ابھی کھیت سے نکال کر لائے گئے ہوں۔ یہاں بھی آلوؤں کیساتھ ہونے والی بدسلوکی دل پر گراں گزری۔آلوؤں کیساتھ کیا جانے والا یہ غیرمساویانہ سلوک کیا ظلم نہیں؟ جب کھانے پکانے کا معاملہ ہو تو ہر ڈش میں آلوؤں کو رگیدا جائے۔ کبھی آلوؤں کے چپس بنائے جا رہے ہیں تو کبھی پکوڑوں اور سموسوں کی زینت بن رہے ہیں۔ کچھ بات چلے کہ کیا پکائیں تو آلو ہر ڈش کا حصہ ہوں لیکن آلو کی قربانی کے باوجود اُس کا نام کم ہی آتا ہے اور اس کیساتھ پکنے والی دیگر سبزیوں اور دوسری اشیائے خوردنی کا نام ہی لیا جاتا ہے۔ آلو کا بڑا پن تو دیکھئے کہ نہ صرف اپنی ہم نفس سبزیوں کا ہمدم بنتا ہے بلکہ چکن’ چھوٹے’ بڑے گوشت’ چاول’ حتیٰ کہ دالوں کو بھی تنہا نہیں چھوڑتا باوجود اس کے کہ نام انہی کا لیا جاتا ہے اور اسے پھر بھی بھلا دیا جاتا ہے۔ ذرا سوچئے آلو نہ ہوتا تو ان لوگوں کا کیا بنتا؟ یہ لوگ آلو سے دیگر ایسی کئی چیزیں بھی بنا لیتے ہیں جو کم آمدنی والے لوگوںکیلئے عیاشی کے زمرے میںآتی ہیں اور روٹین سے ہٹ کر ہوتی ہیں۔
آلو کے ان بے شمار احسانات کو جان لینے کے بعد بھی اُس کیساتھ غیر ”سبزیانہ” سلوک کسی طور مناسب نہیں۔ اس کی بے شمار قربانیوں اور احسانات کا صلہ دینا تو کسی طور ممکن نظر نہیں آتا اور نہ ہم دے سکتے ہیں لیکن کم ازکم اتنا تو کیا جا سکتا ہے کہ آلوؤں کو بھی سبزیوں میں شمار کیا جائے اور اسے بھی دیگر سبزیوں کے برابر کے حقو ق دئیے جائیں’ چاہے سبزی کی دکان ہو’ ہوٹلز یا پھر فوڈ کارنرز ہر جگہ اسے برابر کے حقوق دئیے جائیں۔دوسری جانب انسانوں’ جانوروں اور پودوں سمیت دیگر کے حقوق کی بات کرنے والوں کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ سبزیوں کے حقوق کی بھی کوئی تنظیم ہونی چاہئے تاکہ سب سبزیوں کو برابر کے حقوق ملیں اور کسی سبزی خاص طور پر آلو کی حق تلفی نہ ہو۔

مزید پڑھیں:  انصاف۔ بھٹو سے شوکت صدیقی تک