2 59

کشمیر میں فلسطین ماڈل پر عمل درآمد کا آغاز

کشمیر میں فلسطین ماڈل پر عمل درآمد کا آغاز
بھارت نے 5اگست کے فیصلے کے اصل اور طویل المیعاد مقاصد کی طرف عملی پیش رفت کا آغاز کر دیا ہے۔ بھارتی کابینہ کے ایک اجلاس میں مقبوضہ جموں وکشمیر کیلئے 37قوانین کی منظوری دی گئی۔ ان قوانین کے تحت بھارت کے تمام قوانین ازخود جموں وکشمیر پر لاگو ہوگئیں۔ دفعہ370 اور35A کے خاتمے سے پہلے بھارتی پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کا اطلاق جموں وکشمیر پر نہیں ہوتا تھا بلکہ اس کیلئے کشمیر اسمبلی کی منظوری لازمی ہوتی تھی۔ 5اگست کو یہ رکاوٹ دور کرنے کے بعد اب بھارت نے 72سال تک خصوصی قوانین اور الگ شناخت کی حامل ریاست کو مرکزی قوانین کے دائرۂ اختیار میں لانے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ 37قوانین میں سے ایک یعنی بحالی اور آبادکاری ایکٹ کے تحت بھارتی شہری مقبوضہ جموں وکشمیر میں زمین اور جائیداد خریدنے کے اہل ہوں گے۔ دفعہ35A کی یہی وہ شق تھی جس نے کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی بھارتی خواہشات کے آگے کسی حد تک بند باندھ رکھا تھا۔ اس شق کے خاتمے کے بعد اب بھارت پوری قوت کیساتھ کشمیر پر فلسطین ماڈل کا اطلاق کرنے جا رہا ہے۔ اسی منصوبے کی ایک ہلکی سی جھلک بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کے اس بیان میں بھی نظر آرہی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ وادیٔ کشمیر میں پنڈتوں کی آبادکاری کیلئے تین مخصوص علاقے مختص کئے جارہے ہیں۔ حکومت غیرکشمیری سرمایہ کاروں کیلئے ساٹھ ہزار کنال اراضی فراہم کر چکی ہے۔ ہندو مندر کیلئے بھی سو کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ امیت شاہ کا یہ بیان واضح کررہا تھا کہ بھارت نے اپنے اصل اور پوشیدہ مقاصد اور عزائم کی تکمیل کیلئے قدم بڑھانا شروع کر دئیے ہیں۔ جموں میں مسلمانوں کی چار ہزار کنال اراضی مختلف مقاصد کیلئے ہتھیائی جا چکی ہے۔ بھارتی حکومت دو سے تین لاکھ پنڈتوں کو واپس وادی میں بسانے اور سرمایہ کاری کے نام پر بھارتی ہندوؤں کا ایک ریلا وادی میں داخل کرنا چاہتی ہے۔ بھارتی سرمایہ کار خود یا اپنے فرنٹ مین کے ذریعے کشمیریوں کی زمینیں منہ مانگے داموں خرید کر آبادی کے تناسب کی تبدیلی کے منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دے گی۔ یہ کام صرف فلسطین میں ہی نہیں ہوا بلکہ دنیا میں کئی اور مقامات پر بھی آبادکاری کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی کرکے زمینی صورتحال کو تبدیل کیا گیا ہے۔ شمالی آئرلینڈ اس کی ایک اور مثال ہے جہاں برطانوی حکومت نے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت اکثریتی کیتھولک آبادی کو اقلیت میں بدلنے کیلئے برطانیہ سے پروٹسٹنٹ فرقے کے لوگوں کو بڑی تعداد میں آباد کیا۔ کیتھولک مسلک سے تعلق رکھنے والے آئرش نسل کے لوگ برطانیہ سے الگ ہو کر ریاست آئرلینڈ سے ملنے کے خواہش مند رہے ہیں اور مدتوں آئرلینڈ میں اس مقصد کیلئے خونیں تحریکیں چلتی اور بغاوتیں اُبھرتی رہی ہیں۔ برطانیہ نے اس تنازعے کی نوعیت تبدیل کرنے کیلئے آبادی کا انتقال کیا اور اب برطانوی آبادکار اور پروٹسٹنٹ فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ جنہیں یونینسٹ کہا جاتا ہے آبادی کا اک بڑا حصہ بن چکے ہیں۔ دونوں آبادیوں کے درمیان عددی فرق اب بہت کم رہ گیا ہے۔ اس سے تنازعے کی حرکیات اس حد تک بدل گئی کہ اب یہ کتھولک اور پروٹسٹنٹ آبادیوں کے درمیان کھینچاتانی کا باعث بن گیا ہے۔ مدتوں آئرش ری پبلکن آرمی کی حمایت کرنے والا جمہوریہ آئرلینڈ بھی اب فلسطین کے معاملے میں عرب ملکوں کی طرح کیتھولک آبادی کا حالات کے رحم وکرم پر چھوڑ چکا ہے۔ بھارت کشمیر تنازعہ کی نوعیت تبدیل کرنے کیلئے فلسطین اور شمالی آئرلینڈ ماڈل اپنا رہا ہے۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری کے مصداق جب آبادی کا وجود ہی بے معنی ہوجائے گا تو پھر اس کے نعروںکی شدت اور بغاوت کی طاقت بھی کم اور بے وقعت ہو کر رہ جائے گی۔ مسلمان اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کیلئے بھارت کا یہی منصوبہ تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس کیس میں کشمیریوں کا حامی پاکستان مصر اور اُردن کی طرح کشمیریوں کو تنہا چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوا۔ 5اگست کو مودی حکومت نے ایک جست میں یہ سارا سفر طے کر لیا اور اب وہ بہت عجلت میں وہ تمام اقدامات اُٹھا رہا ہے کہ جس سے اصل منزل کی جانب تیزی سے پیش رفت ہو جس سے صاف لگتا ہے کہ بھارت نے جموں وکشمیر کی شناخت کو پامال کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ اس پر نظرثانی کرنے پر تیار نہیں بلکہ اس راہ پر اتنا دور نکل جانا چاہتا ہے کہ واپسی کا کوئی امکان باقی نہ رہے۔ یہ ساری صورتحال پاکستان کے منصوبہ سازوں کیلئے لمحۂ فکریہ ہے۔ آخر ان کے پاس بھارت کے اس قدم کا جواب کیا ہے؟ بظاہر تو پاکستان اس ساری صورتحال کا مقابلہ سیاسی، سفارتی اور پرامن انداز میں کرنا چاہتا ہے مگر یہ حکمت عملی زمینی حقائق کو تبدیل ہونے سے نہیں روک سکتی۔ بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے نتیجے میں لامحالہ پاکستان میں بھارتی اقدامات کی عملی مزاحمت اور مقابلے کی سوچ پروان چڑھنا شروع ہوگی۔ یہ سوچ پہلے ہی خاصی مقبول اور توانا ہے، سوچ کے ان شعلوں کو معمولی سی ہوا کی ضرورت ہے اور نریندر مودی یہ ہوا دئیے جا رہے ہیں۔ بھارت کے یکطرفہ اقدامات کے بعد جنوبی ایشیا کے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں اس کا فیصلہ وقت ہی کرے گا مگر جلد یا بدیر حالات پاکستان کو بھی اس مقام پر پہنچا کر چھوڑیں گے جہاں ٹویٹ اور تقریریں بے معنی لگنے لگیں گی۔

مزید پڑھیں:  بھارت کا مستقبل امریکہ کی نظر میں