2 62

امن معاہدے کو بچایا جائے

دوحہ امن معاہدے کے بعد جہاں افغان صدر اشرف غنی نے طالبان قیدیوں کی رہائی کی شرط پوری کرنے میں عدم تعاون کا عندیہ دیا وہاں طالبان کے بڑھتے قدموں کو امریکہ نے فضائی بمباری کر کے روکنے کی سعی کی اور عذر یہ تراشا گیا کہ امریکہ افغان فورسز کے دفاع کا پابند ہے۔ یہ ایک عجیب منطق ہے کہ افغانستان کی حکومت کو نظرانداز کر کے طالبان سے معاہدے میں ایسی شرط رکھی گئی کہ جسے پورا کرنے کا اختیار کابل حکومت کے پاس تھا پھر طالبان کی افغان سیکورٹی فورسز پر حملے رکوانے کیلئے امریکی جنگی طیاروں نے طالبان پر بمباری کی اور اسے دفاع کا نام دیا۔ اس سارے عمل سے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکہ بیک وقت طالبان سے معاہدہ اور کابل حکومت کے تحفظ کی ذمہ داری نبھارہا ہے جو عملی طور پر ممکن نہیں۔ طالبان کی جانب سے امریکی بمباری پر کسی سخت ردعمل کا اظہار تو سامنے نہیں آیا لیکن اگر بار بار ایسا ہوا تو اس اعادے پر امریکہ اور طالبان کے درمیان اختلافات بڑھ سکتے ہیں اور معاہدہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ طالبان نے دوحہ امن معاہدے میں امریکی فوج کی علیحدگی کے وعدے سے فائدہ اُٹھا کر افغان سیکورٹی فورسز پر حملے تیز کر دیئے ہیں اور ایک تسلسل کیساتھ جھڑپوں کا ہونا اس امر پر دال ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر کابل پر زوربازو سے قبضہ کرنے کے خواہاں ہیں۔ معاہدے میں اس امکان کے خاتمے کی ضمانت لی جاتی اور مکمل طور پر فائر بندی اور کسی بھی فریق کی جانب سے دوسرے فریق کیخلاف طاقت کے استعمال کی ممانعت کی شرط ہوتی، تبھی بین الافغان مذاکرات کی نوبت آتی۔ اب تک کی صورتحال میں امن معاہدے کو جو خطرات نظر آرہے ہیں اس کے پیش نظر فریقین کو اولاً اس معاہدے کو بچانے اور دوم افغانستان کے معاملات وتنازعات جنگ وجدل کی بجائے پر امن طریقے سے طے کرنے کا راستہ اختیار کرنے کیلئے وسیع بنیادوں پر مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلاء صرف ایک ابتدائی مرحلہ ہوگا، قیدیوں کی رہائی اور تبادلہ بھی اس امر کی ضمانت نہیںکہ بین الافغان مذاکرات کا انعقاد پرامن انداز میں یقینی بن جائیں۔ تازہ حالات میں پر امن طریقے سے مسائل کے حل کی جانب پیشرفت پر اتفاق رائے کا حصول مقدم ہونا چاہئے۔امریکی فوجوں کی تعداد میں کمی اور امریکی افواج کے انخلاء سے امریکہ کو مذاکرات کے مطلوبہ یاکم یا زیادہ ثمرات تو مل سکیں گے لیکن قیدیوں کی رہائی وعدم رہائی سے قطع نظر افغانستان اور افغانوں کو اس معاہدے سے کچھ حاصل نہ ہونے کا خدشہ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امن معاہدے کی کامیابی کا دارومدار افغانستان میں متحارب گروہوں کے درمیان جنگ بندی اور مذاکرات کی ابتداء پر ہے جس کیلئے طالبان کو افغان سیکورٹی فورسز پر حملے بند کرنا ہوں گے، ایک جانب تشدد اور دوسری جانب مذاکراتی عمل کی تیاریاں حوصلہ افزاء نتائج کے حامل نہیں ہو سکتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا طالبان معاہدے کا بنیادی مقصد افغانستان میں امن کی راہ ہموار کرنا ضرور ہے، امن معاہدے کے بعد تشدد سے دامن معاہدے کیلئے خطرات بڑھ رہے ہیں اسے فوری طور پر کم کرنے کیلئے امریکہ اور طالبان کے درمیان روابط میں تیزی لانے کی جہاں ضرورت ہے وہاں اب وقت آگیا ہے کہ افغان حکومت کو بھی ایک فریق کے طور پر اعتماد میں لیا جائے تاکہ قیدیوں کی رہائی اور تشدد میںکمی دونوں کی راہ ہموار ہو۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے