1 57

عورت مارچ یا پانی پت کی آٹھویں لڑائی؟

سوشل میڈیا پر پانی پت کی آٹھویں لڑائی کا آج آخری دن ہے۔ آپ جس وقت یہ تحریر پڑھ رہے ہوں گے لشکری میدان جنگ سے گھروں کو لوٹ چکے ہوں گے۔ 8مارچ کو ہر سال دنیا میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کے منشور میں اور بھی بہت دن ہیں۔ والد کا دن’ والدہ کا دن’ انسانی حقوق کا دن’ تعلیم کادن’ بچوں کے تحفظ کا دن۔ جب بھی ایسا کوئی دن آتا ہے ہمارے یہاں دیسی بدوئوں اور لبرل لبڑلز میں تماشے شروع ہو جاتے ہیں (توفیق مطابق ان تماشوں میں ہم بھی حصہ ڈالتے ہیں) ہم دیسی بدوئوں کی پٹاری میں ہر مرض کی دوا اور ہر مسئلہ کا حل موجود ہے۔ بھٹو صاحب کیخلاف قومی اتحاد کی تحریک چلی تو اسلام پسندوں نے بھٹو’ ان کی جماعت’ اور خاندان کے بارے بہت سارے سوقیانا نعرے ایجاد کئے۔ افسوس کہ ان نعروں کو یہاں لکھا نہیں جاسکتا، جوابی طور پر جیالوں نے بھی کچھ وارداتیں کیں مگر ایک نعرہ دلچسپ تھا جیالوں کا وہ تھا ”اسیں نئیں مننی تہاڈی گل نواب، ٹیوب ویل نواب ٹیوب ویل”۔ (ہم نہیں مانتے تمہاری بات، سارے مسائل کا ایک ہی حل نواب’ ٹیوب ویل)۔ پانی پت کی آٹھویں لڑائی کا آج آخری دن ہے۔ اب تک ان گنت سوشل میڈیا اکائونٹ اور طرفین کے لشکری کھیت ہو چکے۔ دلائل کے انبار سے زیادہ گالیاں اُچھالی گئیں۔ اصلاح پسندوں کے نئے نویلے دیوتا خلیل الرحمن قمر نے ہفتہ کے روز ایک صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے پٹاخ سے گالی دے ڈالی۔ اچھا ویسے گالی دینا’ بُننا اور برداشت کرنا ہمارے یہاں معیوب بالکل نہیں۔ روزمرہ کی گفتگو کا کسی دن سنجیدگی کیساتھ تجزیہ کیجئے۔ بسااوقات تو ایک جملے میں دو گالیاں ہوتی ہیں اور ہر گالی میں عورت ہی نشانہ بنتی ہے۔ گھر بیٹھی عورت ماں’ بہن اور بیٹی’ جس کا قصور بھی کوئی نہیں ہوتا۔ معاف کیجئے گا، یہ بار بار ادھر ادھر نکل جاتا ہوں، پر کیا کروں پچھلے 5دنوں سے جاری پانی پت کی آٹھویں لڑائی میں ایک فریق کو سپورٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس دوران ایک سفر پر بھی جانا پڑا مگر مورچہ خالی نہیں چھوڑا۔
فقیر راحموں کا مسئلہ صرف اتنا ہے کہ وہ ہمیشہ مولوی حضرات کے مخالفین کے کیمپ میں دکھائی دیتا ہے اور اگر کبھی مولویوں کیساتھ جماعت اسلامی بھی کھڑی ہو تو فقیر راحموں کی جنگ دیکھنے والی ہوتی ہے۔ عجیب بات ہے نا! اباجی جماعت اسلامی میں تھے اور افغان جہاد میں راہی ملک عدم ہوئے لیکن فقیر راحموں جماعت اسلامی کا جماندرو مخالف ہے اور افغان جہاد کو امریکہ اور کرائے کے سپاہیوں کی افغان عوام کے ترقی پسند شعور کیخلاف جارحیت قرار دیتا ہے۔ خیر چھوڑیں اصل موضوع پر بات کرتے ہیں، تین چار دن قبل ایک صاحبہ عورت مارچ کیخلاف دلائل دیتے ہوئے فضا میں مکے لہرا رہی تھیں، فقیر راحموں نے ان سے پوچھ لیا ”آنٹی یہ خواتین کے اسلامی حقوق آپ کو اس وقت یاد کیوں نا آئے جب آپ نے اپنی دو بہوؤں کو اوپر نیچے طلاق دلوا کر بیٹے کی تیسری شادی کروا دی۔ ان بہوؤں کا جرم اولاد نہ ہونا تھا مگر تیسری شادی کے تین سال بعد بھی آپ کے صاحبزادے اولاد سے محروم ہیں؟” آنٹی ہتھے سے اکھڑ گئیں اور براہ راست فقیر راحموں کو غیرمسلم قرار دے دیا، وہ تو شکر ہے پانی پت کے میدان کی ایک نکڑ پر ہونے والی اس جھڑپ کے چند لشکریوں نے معاملہ سنبھال لیا ورنہ عین ممکن تھا کہ نعرہ بلند ہوتا ”فقیر راحموں کی ایک ہی سزا سر تن سے جدا”۔ فقیر بھی چھیڑچھاڑ سے باز نہیں آتا، کل ہی اسلام پسند لشکر کے سپاہیوں کو روک روک کر پوچھتا پھر رہا تھا’ حیا مارچ میں آنے والی خواتین کیلئے واجب ہے کہ اپنے محرموں کا اجازت نامہ لیکر آئیں؟۔ اچھا یہ حقوق نسواں کے نام پر چھڑی پانی پت کی آٹھویں لڑائی اب کفر واسلام کی جنگ بن گئی ہے۔ برصغیر پاک وہند میں اور خصوصاً پاکستان میں اسلام ہمہ وقت خطرے میں رہتا ہے۔
اچھا آپ عورت مارچ والوں سے اختلاف کر سکتے ہیں یہ آپ کا حق ہے، آزادی اظہار اسی کو کہتے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پانی پت کی اس آٹھویں لڑائی میں عورت مارچ والوں کو مخالفین نے ایسی کونسی گالی ہے جو کرۂ ارض پر دستیاب ہو اور نا دی ہو؟۔ حیرانی ہوتی ہے بہن اور بیٹیوں کو شرعی حصہ نہ دینے والے بھی ہمیں اسلامی اقدار سمجھانے آجاتے ہیں۔ اچھا کسی دن وقت نکال کر عرب سماج کے تاریخی پس منظر کو شعوری طور پر سمجھنے کی کوشش کیجئے گا’ یہ جو ہمارے ہاں اسلامی اقدار کے مجاہدین زندگیاں دائو پر لگائے ہوئے ہیں یہ جن روایات’ اقدار اور اصولوں کو بنام اسلام پیش کر رہے ہیں ان میں سے زیادہ تر برصغیر کے برہمنی سماج کی قدیم روایات ہیں۔ خیر ہمیں کیا: آج پانی پت کی آٹھویں جنگ کا آخری دن ہے کشتوں کے پشتے لگا کر فوجیں واپس بیرکوں کو روانہ ہوچکی ہوں گی۔ زبان’ دماغ اور دلوں کے چسکے پورے ہوئے، اب اگلے سال مارچ میں پھر تازہ دم لشکری میدان میں اُتریں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ متحارب لشکری اپنی اپنی خواتین کو سال بھر میں کتنے حقوق دیتے ہیں۔ ارے صاحب یہ کفر واسلام کی جنگ نہیں 52فیصد خواتین کے حقوق کا معاملہ ہے۔ کھیت مزدور’ اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والی محنت کش خواتین، دفتروں اور دیگر مقامات پر خدمات سرانجام دیتی، گھریلو ملازمائیں’ ان سب کے بنیادی انسانی حقوق ہیں، ریاست اور سماج پر واجب ہے ان کے حقوق فراہم کرے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ اچھے بھلے کام کو جنگ وجدل میں بدل ڈالتے ہیں، تھک ہار کر سستانے لگ جاتے ہیں، ادھر استحصال کا شکار طبقہ سوچ رہا ہوتا ہے یہ ہمارے ہمدرد تھے یا صرف تماشائی۔ حرف آخر یہ ہے کہ کسی دن ٹھنڈے دل سے سوچئے گا ہم جس خطے میں رہ رہے ہیں یہ دنیا کی قدیم تہذیبوں کا وارث ہے، ان تہذیبوں کاجن میں خواتین کو مساوی حقوق حاصل تھے تو پھر ایسا کیا ہے کہ ہم اپنی تہذیب وتاریخ سے منہ موڑ کر کھڑا ہونے میں فخر محسوس کر رہے ہیں؟۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!