2 65

نیب کی ساکھ پراعلیٰ عدلیہ کے سوالات

پاکستان میں احتسابی عمل پر ہمیشہ سے سوالات اُٹھائے جاتے رہے ہیں’ ہر دور میں حکومت احتسابی عمل کو مخالفین کیخلاف ایک بڑے سیاسی ہتھیارکے طور پراستعمال کرتی رہی ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی دورِ حکومت میںکرپٹ اور بدعنوان لوگوں کا احتساب ممکن نہیںہو سکا اور نہ ہی یہ عمل سیاسی وقانونی نظام میںاپنی سیاسی ساکھ قائم کر سکا ہے ‘ نیب کے احتسابی عمل پر تحفظات کا اظہار اگر متاثرین کریں تو بات سمجھ میں آتی ہے کیونکہ خود احتساب سے بچنے کیلئے یہ لوگ پورے احتسابی عمل پر سوالات اُٹھا دیتے ہیں لیکن اگر نیب کی ساکھ پر سپریم کورٹ یا ہائی کورٹس سوالات اُٹھائیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نیب اپنی ساکھ کھوچکا ہے ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے گزشتہ روز نیب کے کردار پر کچھ ایسے ہی سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ نیب اختیارات کا غلط استعمال گورننس اور معیشت پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے ‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلاتفریق احتساب اورکرپشن کے خاتمے کو ضروری قرار دیتے ہوئے کہا کہ گرفتاری کیلئے شواہد ضروری ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ نیب کا ادارہ کرپشن کی روک تھام کیلئے قائم کیا گیا تھا جس کا اولین مقصد شفافیت کو برقرار رکھنا تھا تاکہ گورننس بہتر رہے اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو لیکن جب اعلیٰ عدلیہ نیب کے کردار بارے قرار د ے کہ اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے گڈ گورننس اور معیشت پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں تو پھر حکومت کو نیب کی اصلاح کیلئے سنجیدگی سے غور و خوض کرنا چاہیے۔ اس وقت ہمیں احتساب کے تناظر میں چار بڑے مسائل کا سامنا ہے۔ اول نیب کی خود مختاری سے جڑے سوالات’ ساکھ اور بے لاگ یاشفاف احتساب کا فقدان ‘ دوم احتساب میں ساری توجہ کا مرکز حکومت کے سیاسی مخالفین ہوتے ہیں اور حکومت سے جڑے افراد کے بارے میں اختیار کی جانے والی نرم پالیسی اختیار کی جاتی ہے’ سوم تفتیش اور تحقیقات کے نظام میں بے پناہ مسائل اور تاخیری حربے یا لوگوںکو طویل عرصے تک زیرِحراست رکھنا اور مقدمات بنا کر عدالتوں میں پیش نہ کرنا’ چہارم نیب پر سیاسی گٹھ جوڑ کا الزام یا آلہ کار کے طور پر کام کرنا۔ پاکستان میں جاری احتسابی عمل بارے عمومی تاثر یہ ہے کہ طاقتور طبقوں کو اگرچہ کسی نہ کسی شکل میں قانونی شکنجے میں لایا گیا لیکن ان کے احتساب کا عمل بہت سی قانونی پیچیدگیوں یا سیاسی سمجھوتوں کے باعث مسائل کا شکار رہا اور وہ بالآخر احتساب سے بچ نکلے۔ نیب کا زیرِحراست ملزمان کا بار بار ریمانڈ لینا اور ان کیخلاف مقدمات کا نہ بننا بھی ان کیخلاف قائم الزامات کو مشکوک بنا رہا ہے’ متاثرین کیساتھ عام شہری یہ سوالات اُٹھا رہے ہیں کہ اگر زیرِ حراست ملزمان مجرم ہیں تو ان کیخلاف تاخیر کیونکر کی جا رہی ہے ‘ صورتحال یہ ہے کہ کئی کئی ماہ تک نیب کی حراست میںرہنے کے بعد ملزمان کو ضمانتیں مل رہی ہیں اور یہ تاثر اُبھر رہا ہے کہ نیب ملزمان کو طویل عرصہ تک حراست میں رکھنے کے باوجود کچھ ثابت نہیں کر سکا ہے’ اب تک درجنوں ایسے کیسز سامنے آئے ہیں جن میںاعلیٰ عدلیہ نے نشاندہی کی ہے کہ نیب کرپشن کے مقدمات بنانے میںغلطیاں کر رہاہے ‘ حکومت اور اپوزیشن کے باہمی اشتراک سے نیب ترمیمی آرڈیننس 2019ء لایا گیا جس کی بنیادی وجہ بھی گورننس اور معیشت کو قرار دیا گیا تھا کہ نئے آرڈیننس کے ذریعے بزنس کمیونٹی کو محفوظ کر دیا گیا ہے اور نیب کو صرف پبلک آفس ہولڈرز کی سکروٹنی تک محدود کر دیا گیا ہے لیکن نیب ترمیمی آرڈیننس 2019ء کو متعارف کرانے کے باوجود اعلیٰ عدلیہ نیب کی کارکردگی پر سوالات اُٹھا رہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیب کے حوالے سے پورا کام نہیںکیاگیا ہے’ اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ احتساب کے عمل کو غیرمتنازعہ بنانے کیلئے حکومت’ نیب اور عدلیہ سمیت تمام ادارے سرجو ڑ کر بیٹھیں اور ہنگامی بنیادوں پر ایک ایسی حکمت عملی وضع کریں جو شفاف احتساب کے عمل کو ممکن بناسکے۔

مزید پڑھیں:  جگر پیوند کاری اور بون میرو ٹرانسپلانٹ سنٹرز کا قیام