2 67

مشرقیات

جب عمر ملک شام تشریف لے گئے تو لوگوں نے اور وہاں کے سرداروں نے حضرت عمر کا استقبال کیا ۔ حضرت عمر نے فرمایا : میرا بھائی کہاں ہے ؟ لوگوں نے پوچھا : وہ کون ہے ؟ انہوں نے فرمایا : حضرت ابو عبیدہ ، جووہاں کے گورنر تھے ۔ لوگوں نے کہا : وہ ابھی آپ کے پاس آجائیں گے ۔ چنانچہ جب حضرت ابو عبیدہ آئے تو سواری سے نیچے اتر کر حضرت عمر نے انہیں گلے لگا یا ۔ پھر ان کے گھر تشریف لے گئے اور انہیں گھر میں صرف یہ چیز یں نظر آئیں ، ایک تلوار ، ایک ڈھال اور ایک کجا وہ ۔
حضرت سعد بن ابی وقاص حضرت سلمان فارسی کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے ، ان کو دیکھ کر حضرت سلمان پر گریہ طاری ہو گیا ، حضرت سعد نے ان سے فرمایا : روتے کیو ں ہو ، ان شا ء اللہ حوض کوثر پر تمہاری آنحضرت ۖ اور دیگر صحابہ سے ملاقات ہوگی ۔ علاوہ ازیں آپ ۖ اس دنیا سے تشریف لے جاتے وقت آپ سے راضی تھے ۔انہوں نے فرمایا : میں فقط اس وجہ سے رو رہا ہوں کہ آپ ۖنے ہم سے عہد لیتے ہوئے فرما یا تھا : اے لوگو ! ایک مسافر کی دنیا کے مساوی تمہارے پاس دنیا ہونی چاہیے ، لیکن آج ہمارے ارد گرد گائو تکیے لگے ہوئے ہیں ، پھر حضرت سعد نے ان سے وصیت کی درخواست کی تو فرمایا : اے سعد ! جب کسی کام کا ارادہ کرو تو اللہ کو یاد کر لینا ، جب کوئی فیصلہ کر و تو اللہ کو یاد کر لینا اورکوئی شے تقسیم کرو تب بھی اللہ کو یاد رکھنا ۔ راوی کہتے ہیں کہ وفات کے بعد ان کے گھر میں فقط 20درہم کا ساما ن تھا ۔
محمد اسدی کے والد ابو بکر کا بیان ہے کہ میں نے جس سال حج کیا، اسی سال ابو القاسم البغوی اور ابو بکر الادمی القاری نے بھی حج کیا ۔ جب ہم نے حج کے فرائض ادا کر لیے تو مدینہ منورہ کی زیارت کا ارادہ کیا ۔ مدینہ میں ایک دن ابو القاسم البغوی میرے پاس تشریف لائے اور کہنے لگے : اے ابو بکر ! مسجد نبوی ۖ کے ایک گوشے میں ایک نابینا آدمی نے اپنی مجلس قائم کر رکھی ہے اور حاضرین کو من گھڑت قصے او ر موضوع احادیث سنا رہا ہے ۔ کیوں نہ ہم لوگ اس مجلس میں چلیں اور اسے وعظ کرنے سے روکیں ؟
میں نے کہا : ابو القاسم ! ابھی ہماری حالت اس قدر مضبوط نہیں ہے کہ حا ضرین مجلس ہماری بات سننے پر آمادہ ہوجائیں گے ہاںالبتہ اس کے بجائے کوئی دوسری مناسب صورت نکالی جا سکتی ہے ۔
یہ کہہ کر میں نے ابو بکر الادمی کا ہاتھ پکڑا جوا چھے قاری تھے اور آگے بڑھا کر کہا: چلیے ، تلاوت کلام پاک کیجئے ۔ انہوں نے جونہی تلاوت کلام پاک شروع کی ،آہستہ آہستہ لوگ نا بینا کی مجلس سے اٹھ کر ہماری مجلس میں منتقل ہونے اور ابو بکر کی قرات سے محظوظ ہونے لگے ۔ تھوڑی ہی دیر میںنابینا کی مجلس خالی نظر آنے لگی اور اب تمام حاضرین ہماری مجلس کی زینت بنے ہوئے تھے ۔ یہ دیکھ کر اندھے نے اپنے رہبر سے کہا: ” میرا ہاتھ پکڑ کر گھر لے چلو ، نعمتیں اسی طرح زوال پذیر ہوتی ہیں ۔ ”

مزید پڑھیں:  بجلی کے سمارٹ میٹرز کی تنصیب