2 94

مشرقیات

حضرت خنساء مشہور شاعرہ ہیں ، اپنی قوم کے چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ آکر مسلمان ہوئیں، علامہ ابن اثیر کہتے ہیں کہ اہل علم کا اس پر اتفاق ہے کہ کسی عورت نے ان سے بہتر شعر نہیں کہا ، نہ اس سے پہلے نہ ان کے بعد ۔ حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں 16 ھ میں قادسیہ کی لڑائی ہوئی ، جس میں حضرت خنساء اپنے چاروں بیٹو ں سمیت شریک ہوئیں ۔ لڑکوں کو ایک دن پہلے بہت نصیحت کی اور لڑائی کی شرکت پر بہت ابھار ا ، کہنے لگیں : اے میرے پیارے بیٹو ! تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے ہو اور اپنی ہی خوشی سے تم نے ہجرت کی ۔ اس ذات کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، جس طرح تم ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہو ، اسی طرح ایک باپ کی اولاد ہو ۔ تمہیں معلوم ہے کہ اللہ جل شانہ نے مسلمانوں کے لیے کافروں سے لڑائی میں کیا کیا ثواب رکھا ہے ۔ تمہیں یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ آخرت کی باقی رہنے والی زندگی دنیا کی فنا ہو جانے والی زندگی سے کہیں بہتر ہے ۔
اللہ جل شانہ کا پاک ارشاد ہے : اے ایمان والو ! تکالیف پر صبر کرو ( اور کفا ر کے مقابلے میں ) صبر کرو اور مقابلے کے لیے تیار رہو اور اللہ سے ڈرو تاکہ تم پورے کامیاب ہو ۔ لہٰذا کل صبح کو جب تم صحیح وسالم اٹھو تو بہت ہو شیاری سے لڑائی میں شریک ہو اور اللہ تعالیٰ سے دشمنوں کے مقابلے میں مدد مانگتے ہوئے بڑھو اور جب تم دیکھو کہ لڑائی زور پر آگئی اور اس کے شعلے بھڑکنے لگیں تو اس کی گرم آگ میں گھس جانا اور کافروں کے سردار کا مقابلہ کرنا ، انشاء اللہ تعالیٰ جنت میں اکرام کے ساتھ کامیاب ہو کر رہو گے ۔چنانچہ صبح کو لڑائی زوروں پر ہوئی تو چاروں لڑکوں میں سے ایک ایک نمبر وار آگے بڑھتا تھا اور اپنی ماں کی نصیحت کو اشعارمیں پڑ ھ کر امنگ پیدا کرتا تھا اور جب شہید ہوجاتا تھا تو اسی طرح دوسر ا بڑھتا اور شہید ہونے تک لڑتا رہتا تھا ۔ بالآخر چاروں شہید ہوئے ۔ اور جب ماں کو چاروں کے شہید ہونے کی خبر ہوئی تو انہوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ جس نے ان کی شہادت سے مجھے شرف بخشا ۔ مجھے اللہ کی ذات سے امید ہے کہ اس کی رحمت کے سائے میں ان چاروں کے ساتھ میں بھی رہوں گی ۔
(تاریخی واقعات)
حضرت ذوالنون مصری سے کسی نے پوچھا کیا حال ہے ؟ فرمایا بڑے مزے میں ہوں اور اس شخص کے مزے کا کیا پو چھتے ہو کہ اس کائنات میں کوئی واقعہ اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا ، میں نے اپنی مرضی کو اللہ کی مرضی میں فنا کر دیا ، جو اللہ کی مرضی وہ میری مرضی اور دنیا میں سارے کام اللہ تعالیٰ کی مرضی ہی سے ہوتے ہیں اور میری بھی وہی مرضی ہے اور جب سارے کام میری مرضی سے ہور ہے ہیں تو میرے مزے کا کیا پوچھنا ، پریشانی تو میرے قریب بھی نہیں بھٹکتی ، پریشانی تو اس شخص کو ہو جس کی مرضی کے خلاف کام ہوتے ہوں گے ۔

مزید پڑھیں:  رموز مملکت خویش خسروان دانند