2 99

مشرقیات

معرکہ یرموک میں جب رومی لشکر نے آزما کر دیکھ لیا کہ نیزہ و شمشیر انفرادی واجتماعی جنگ میں مسلمانوں کا پلہ بھاری ہے تو ان کے سپہ سالار ماہان نے ایک لاکھ تیر اندازوں کا ٹڈی دل میدان میں اتار دیا ، ان سب نے اچانک تیر اندازی شروع کردی ، جس سے اسلامی لشکر کو سخت نقصان پہنچا ، سینکڑوں مجاہدین کی آنکھیں ضائع ہوگئیں ۔ یہ دن یرموک کے معرکوں میں سخت ترین دن ثابت ہوا ،تیر اندازوں کا سیلاب بڑھا چلا آرہاتھا ، یہ صورت حال دیکھ کر حضرت خالد بن ولید ، حضر ت عمروبن العاص، حضرت زبیر بن العوام ، حضرت شرجیل بن حسنہ اور حضرت ضرار بن ازرور جانبازوں کی ایک جماعت سمیت تیر وں کی بارش میں آگے بڑھے اور رومیوں کے سمند ر میں ڈوب گئے ۔ ان لوگوں نے تیر اندازوں کے اندر گھس کر ایسا شدید حملہ کیا کہ لاشوں سے میدان بھر گئے ، حضرت خالد نے اس دن جانبازی کے خوب جوہر دکھائی ، ان کے ہاتھوں میں اس دن نو تلواریں ٹوٹیں ، جانبازوں کی بہادری رومیوں کو دھکیلتی ہوئی ان کی قیام گاہ تک لے گئی ، چالیس ہزار دشمن مارے گئے اور باقی ماندہ فوج کے حوصلے پست ہوگئے ، حتیٰ کہ رومیوں کو اس دن شکست فاش سے دوچار ہونا پڑا ۔
(سچی اسلامی کہانیاں ، صفحہ ،44)
بادشاہ ناصر الدین محمود کے ایک خاص مصاحب کا نا م ”محمد ” تھا ، بادشاہ اسے اسی نام سے پکارا کرتاتھا ۔ ایک دن انہوں نے خلاف معمول ” تاج الدین ” کہہ کر پکارا تو وہ تکمیل حکم میں تو حاضر ہوگیا ، لیکن پھر تین دن غائب رہا ۔ بادشاہ نے غائب رہنے کی وجہ دریافت کی تو کہنے لگا کہ آپ نے ہمیشہ مجھے ”محمد ” کہہ کر پکارا ہے ، لیکن اس دن ”تاج الدین ” کہہ کر پکارا تو میں سمجھا کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے آپ نے ایسا کیا ۔ بادشاہ نے جواب دیا کہ میں نے آپ کا نام لے کر آپ کو اس لیے نہیں پکارا ،کیوں کہ اس وقت میرا وضونہیں تھا اور بغیر وضو کے ”محمد” کا مقدس نام لینا مناسب نہ لگا ۔
(تاریخ فرشتہ جلد 1، صفحہ ،276)
حافظ ابن رجب شیخ الاسلام موفق الدین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ابوالحسن بن حمد الجرائحی کہتے ہیں’ مجھے اعضاء کے تشنج کا مرض لاحق ہوا’ میں ایک ہفتہ تک بے حس و حرکت پڑا رہا’ حتیٰ کہ موت کی تمنا کرنے لگا’ عشاء کے وقت قریب شیخ موفق میرے پاس آئے اور مجھے یہ آیات پڑھ کر سنائیں:
ترجمہ: اور ہم قرآن( کے ذریعے) سے وہ چیز نازل کرتے ہیں جو مومنوں کے لئے شفاء اور رحمت ہے۔اور میری پیٹھ پر ہاتھ پھیرا’ ( جس سے) مجھے عافیت محسوس ہوئی’ وہ اٹھ کھڑے ہوئے’ میں نے (اپنی خادمہ کو آواز دے کر) کہا’ اے خادمہ! ان کے لئے دروازہ کھولو’ انہوں نے کہا: میں وہیں سے واپس لوٹوں گا جہاں سے آیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے۔
(تاریخی واقعات)

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے