5 51

انعام خداوندی اورہماری ناشکریاں

مادہ پرست نظام نے انسان کو مادے کا ایسا گرویدہ بنایا کہ اسے پیسے کے مقابلے میں کوئی دوسری چیز نظر ہی نہیں آرہی تھی حالانکہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی شاہکار مخلوق انسان کیلئے پیسے کے علاوہ جتنی نعمتیں فراہم فرمائی ہیں ان کی کوئی حد نہیں۔ انسانی اعضاء اور قویٰ اور پھر ان اعضاء کا اپنی اپنی جگہ پر اپنے دئیے گئے فریضہ کے مطابق کام کرنا اور خدانخواستہ کہیں ایک سیل یا جین وغیرہ بے ترتیب ہوجائے تو پورانظام گڑ بڑ اور تعطل کا شکار ہونے لگتاہے اور پھر انسان کے اندر قیمتی ترین متاع روح کا پیداہونا
اور یوں جسم اور روح کے میلاپ سے خوبصورت انسان کا وجود میں آنا اور اس میلاپ کو قائم رکھنے اور رہنے کیلئے مادی اور روحانی غذاؤں کی فراہمی یقینا انسانیت پر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی مہربانیاں ہیں اور جب تک روح اور جسم کی ضروریات اور تقاضوں کے درمیان اعتدال قائم رہا تو انسانی زندگی کی گاڑی بہت متوازن انداز میںاپنی منزل ومقصودکی طرف گامزن رہی’لیکن جب روحانی دنیا پر مادیت کا غلبہ حاوی ہوگیا تو یہ خوبصورت توازن بگڑ گیا اور نتیجتاً انسان مادے کا اسیرہوکررہ گیا۔
اس اسیری کے دور میں رشتے ناتے’ محبت واخوت’ احساس وضمیر’ امانت ودیانت’ ایثار وقربانی’ انصاف ومساوات الغرض اعلیٰ انسانی اقدار جن کی ترویج واشاعت کیلئے انبیاء کا سلسلہ چلایاگیا اور اس سلسلے کی تکمیل خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ اورخلق عظیم کی صورت میں انسانیت کے سامنے قیامت تک کیلئے اکمل واجمل معیار ٹھہراہے لیکن ہماری بدقسمتی دیکھنے کے قابل ہے کہ اکمل واجمل معیارحیات کی موجودگی کے باوجود ہم ادھر ادھر سے نامکمل اور غیرمعیاری نظام ہائے حیات کے ظاہری چمک دمک کے سبب ایسے گرویدہ ہوئے کہ کوئی دوسری چیز آنکھوںمیں جچتی ہی نہ تھی اور اس کا نتیجہ آج کی اس وبائی مرض کورونا کی صورت میں سامنے ہے۔ وہ لوگ اور انسان جو عالمگیر (گلوبل) دنیا بنا کر بھی ایک دوسرے سے اس حد تک بیزار ہونے لگے تھے کہ ایک دوسرے کے ختم کرنے بلکہ صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھے، یہی حال ہم مسلمان معاشروں کاتھا۔ عراق’ افغانستان’ شام’ لیبیا’ فلسطین’ برمااور کشمیر میں انسانیت کیساتھ جو کچھ ہوا اور بالخصوص کشمیریوں کو جس طرح سات مہینے سے لاک ڈائون رکھا گیا اورآج کی ترقی یافتہ دنیا’ سپرپاورز اور اقوام متحدہ اور مسلمان ممالک بالخصوص سعودی عرب وامارات جیسے ملک اپنے مادی مفادات کی حفاظت اور بھارت کی ڈیڑھ ارب آبادی کی مارکیٹ کو ہاتھوں میں رکھنے کیلئے سب خاموشی اختیار کئے رہے۔ کسی کو ماسوائے پاکستان’ ملائشیاء اور ترکی کے یہ احساس تک نہ ہواکہ آخرسات لاکھ بھارتی ظالم افواج کی موجودگی میں یہ اسی لاکھ کشمیریوں کے شب وروز کیسے گزرتے ہوں گے۔ اب شاید جب لوگ وبائی مرض کے خوف سے اپنے گھروں میں تنہائی کے شکار ہیں کچھ احساس توضرور ہواہوگا۔
اس لاک ڈائون کے دوران حساس ضمیروں کو بخوبی معلوم ہوچکاہوگا کہ قید تنہائی کتنی اذیت ناک ہوتی ہوگی (اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے)۔ مجھے رات مولانا محمد علی جوہر یاد آئے تھے جن کو انگریزوں نے کراچی میں تین برس قید تنہائی میں رکھاتھا اور اس دوران ان کی اکلوتی بیٹی آمنہ بیمار ہوکروفات پاگئی تو اس مومن بطل عظیم نے اپنے دل کے احساسات کو کس طرح الفاظ کا جامہ پہنایا تھا
میں ہوں مجبور پر اللہ تو مجبور نہیں
تجھ سے میں دورسہی وہ تو مگر دور نہیں
امتحاں سخت سہی پر دل مومن ہی وہ کیا
جو ہر ایک حال میں اُمید سے معمور نہیں
ہم کو تقدیرالٰہی سے نہ شکوہ نہ گلہ
اہل تسلیم و رضاکا تو یہ دستور نہیں
تیری صحت ہمیں مطلوب ہے لیکن اس کو
نہیں منظور تو پھرہم کو بھی منظور نہیں
ہمارے ان بزرگوں کا اور کمال دیکھئے کہ آج ان کا جسد خاکی ارض الانبیاء میں مدفون ہے۔ اسلئے اس وباء کے دوران اللہ تعالیٰ پر توکل کو مزید مضبوط بناتے ہوئے احتیاطی تدابیرکو اختیار کرنا تقدیرکا حصہ ہے۔
ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ اس آفت کے دوران بھی سیاست جاری ہے۔ سیاستدان تقسیم’ میڈیا کے اپنے مفادات اورعلماء کے مکاتب روایت کے مطابق بحث ومناقشہ کے شکار۔ اور حکومت سب سے زیادہ مذبذبکہ ایک طرف جامعہ ازہر سے فتاویٰ اور دوسری طرف اپنے مسلک کی بنیاد پر تقسیم علماء سے استفتائ، بھئی اگر وباکی روک تھام کیلئے مساجد ومدارس میں اجتماع خطرے کا باعث ہے تو پھر حکومتیں آرڈر جاری کرتی ہیں’ مشوروںمیں دن ضائع نہیں کرتیں۔ تسلیم کہ جامعہ ازہر میں حکومتی دباؤ سے آزاد علماء نہیں ہوتے، عرب ممالک میں ملوکیت کے سبب کوئی زیادہ ہاتھ پیر نہیں ہلاسکتا لیکن ہمارے ہاں بھی تو ایک عجیب کیفیت ہے نا، کہ بعض علماء حکومت کی خواہش کہ مساجدمیں صرف چار پانچ بندے باجماعت نمازیں اداکریں’کے حمایتی اور بعض مخالف اور بعض اصولی طور پر متفق لیکن اپنے پیروکاروں ومریدین کے خوف سے اظہار نہیں کر پاتے اور بعض کو تین پانچ کی تعداد پر اختلاف ہے۔ اسلام دین فطرت ہے، ہمارے لئے ساری زمین مسجدکی مانند ہے۔ حکومت وقت کی بات ماننا فیصلوں کے بروقت نفاذ میں معاون ہوتا ہے۔ لہٰذا اولی الامر نہ سہی’ اپنے عوام کی حفاظت اور ملک کو اس وباء سے محفوظ رکھنے کیلئے ایسے اقدامات کئے جائیں کہ مساجد سے اذان کی صدائیں بھی بلند ہوتی رہیں اور احتیاطی تدابیر بھی زیر عمل ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس وباء وبلا سے محفوظ رکھے۔ آمین

مزید پڑھیں:  موسمیاتی تغیرات سے معیشتوں کوبڑھتے خطرات