2 108

وسیع البنیاد حکمت عملی کی ضرورت

وسیع البنیاد حکمت عملی کی ضرورت
چیئرمین ٹاسک فورس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطاء الرحمن نے حالات کے مزید بگڑنے کے حوالے سے جو بیان دیا ہے اور جن اقدامات کی طرف اشارہ کیا ہے معروضی حالات میں ان کو اختیار کرنے میں مزید تاخیر سے خدانخواستہ حالات بگڑنے کا خطرہ ہے۔ یہ تو خوش قسمتی سے پاکستان میں کورونا وائرس کا پھیلائوبے قابو نہیں ہوا ہے وگرنہ چین ،ایران،امریکہ،اٹلی اور دنیا کے دیگر ممالک میں اس وباء سے نمٹنے کے اقدامات اور پاکستان کے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو دنیا کے جدید طریقوں اور حفاظتی اقدامات کے سامنے ہمارے ہاں صفر بٹا صفر کے اقدامات وانتظامات نظر آتے ہیں، عالم یہ کہ اب تک ہمارے طبی عملے کو حفاظتی دستانے اور کٹ دستیاب نہیں کجا کہ عوام اس کی توقع کریں۔ اس صورتحال میں ڈاکٹر عطاء الرحمان کی یہ بات خاص طور پر باعث تشویش اور توجہ طلب ہے جس میں انہوں نے پوری ذمہ داری سے اس امر کی نشاندہی کی ہے کہ کورونا وائرس کے مریضوں کا جو ڈیٹا آرہا ہے وہ صحیح عکاسی نہیں کر رہا مریضوں کی اصل تعداد زیادہ ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ کورونا وائرس کے زیادہ سے زیاہ ٹیسٹ کرنے کی ضرورت ہے، امر واقع یہ ہے کہ جب ہمارے پاس مناسب لیبارٹریاں اور ساز وسامان ہی دستیاب نہیں تو ٹیسٹ کیسے کئے جائیں۔ یہاںتو صرف ان مریضوں کا ٹیسٹ ہورہا ہے جو یا تو سرکاری اہلکار ہوں یا پھر ان کے علاقے میں کورونا وائرس سے کسی کی موت واقع ہوئی ہو۔ یہاں صرف اس شخص کو مریض قرار دیا جاتا ہے جو کورونا وائرس کا شکار ہونے کے باعث آخری سٹیج پر ہو۔ ٹیسٹ نہ ہونے سے اس امر کا علم ہی نہیں ہوتا کہ کتنے افراد کورونا وائرس سے متاثر ہوئے اور ان کے مدافعتی نظام نے اس کا کامیاب مقابلہ کیا، یہاں تو جب تک میڈیا میں کہرام نہیں مچتا اس وقت تک سرکاری اداروں کی کوشش یہ نظر آتی ہے کہ معاملہ دبا دیا جائے۔ اس کی ایک مثال حیات آباد کے معروف بلند وبالا عمارتوں کے کئی رہائشیوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے اور محکمہ صحت کی ٹیم کی آمد اور مریضوں کو منتقل کرنے کے باوجود مزید حفاظتی اقدامات کی زحمت نہ اُٹھانا ہے، جب سوشل میڈیا پر اس واقعے کی تصویر دستیاب ہے اس کے باوجود حفاظتی اقدامات سے پہلوتہی کا کیا جواز باقی رہ جاتا ہے۔ اس طرح کی نجانے کتنی مثالیں ہوں گی جس سے غفلت ولاپرواہی واضح ہو۔ ڈاکٹر عطاء الرحمان ایک ذمہ دار عہدیدار ہیں، ان کا بیان ہوا میں تیر چلانے والا عمل قرار نہیں دیا جا سکتا، حکومت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ افراتفری پھیلانے سے اجتناب کی ضرورت ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیںکہ حکومتی ادارے پانی سر سے اونچا ہوتے دیکھ کر بھی اقدامات نہ کریں، اس وقت جس بڑے پیمانے پر لوگوں کا ٹیسٹ کر کے ڈیٹا اکھٹا کرنے کی ضرورت ہے اس پر عدم توجہ کی بنیاد ی وجہ مناسب سہولتوں کی عدم موجودگی ہی قرار دیا جاسکتا ہے جو معروضی صورتحال میں درست بھی ہے۔ حکومت کا لاک ڈاؤن کر کے صورتحال کو بے قابو ہونے سے بچانے کے اقدام کے مؤثر ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اسے ثمرآور بنانے کے اقدامات ہوں۔ اگر اس مرض پر قابو پانا ہے تو زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے ہوں گے، مثبت علاقوں میں مکمل لاک ڈاؤن کا سخت طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا جو لوگ بے مقصد گھروں سے باہر نکل رہے ہیں ان کو سختی سے روکنا ہوگا۔ ایران سے زائرین کی واپسی اور افغانستان سے سرحد کی بندش کے باوجود آنے والوں کو پوری طرح روکنا ہوگا، اندرون ملک باربرداری کے ٹرکوں میں چھپ کر سفر کرنے کی روک تھام کرنا ہوگی، لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کیلئے مزید سختی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ جنازے، شادی بیاہ، مذہبی اجتماعات اور تقریبات کو محدود کرنا ہوگام سب سے بڑھ کر یہ بجائے اس کے کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت کو اس طرح کے دعوؤں سے اجتناب کرنا ہوگا کہ پاکستان میں تخمینوں سے بہت کم کیسز ہیں۔ اس طرح کا غیرحقیقت پسندانہ بیان طفل تسلی ہو سکتی ہے، حقائق سے فرار کا بھی اسے نام دیا جا سکتا ہے۔ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ اس کا درست ادراک اور تجزیہ کیا جائے اور اس ہلاکت خیز وائرس پر قابو پانے کیلئے اقدامات میں تیزی لائی جائے۔ اگر دو اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کا تخمینہ اور اندازہ ہی ایک دوسرے سے مختلف اور متضاد ہوں گے تو حالات کی نزاکت کا ادراک کیسے ہوگا اور درست سمت اقدامات کیسے ممکن ہو سکیں گے۔
امداد وراشن کی سپلائی کا عمل شفاف ہونا چاہئے
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ویلج اور نیبرہوڈ کونسلوں کی سطح پر سرکاری کمیٹیوں اور سرکاری عملے کے ذریعے انیس لاکھ افراد کو امداد کی فراہمی کا تیرہ روزہ منصوبہ احسن اور قابل اطمینان قدم ہے، البتہ وفاقی حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن کے دوران راشن سپلائی کا کام پی ٹی آئی عہدیداروں کے سپرد کرنے کا اقدام حکومت کیلئے باعث تنقید قدم تو ہوگا ہی اس انتظام سے سرکاری امداد کو سیاسی رنگ ملنے کیساتھ ساتھ اس کی تقسیم منصفانہ بنیادوں پر نہ ہونے کا پوری طرح امکان ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اس اقدام کی انجام دہی میںکتنی بھی شفافیت سے کام لینے کی سعی کی جائے ماضی کے تجربات اور معروضی حالات میں یہ ممکن ہی نظر نہیں آتا کہ امداد کی یہ تقسیم اندھے کے ریوڑھیاں بانٹنے کے مصداق بن جائے۔ ایک ہی جماعت کے وفاقی اور صوبائی حکومت کا الگ الگ طریقہ کار بھی مناسب نہیں چونکہ یہ ملک گیر مسئلہ ہے اس لئے اس کا طریقہ کار بھی ملک گیر اور متفقہ بنانے کی ضرورت ہے۔ خیبر پختونخوا کی حکومت نے جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اگرچہ سرکاری اہلکاروں کا ریکارڈ کبھی اچھا نہ رہا اس کے باوجود بھی بہ امرمجبوری سرکاری ہاتھوں ہی امداد کی تقسیم قدرے بہتر فیصلہ ہے۔ اس ضمن میں حزب اختلاف کو اعتماد میں لینے کا چونکہ موقع نہ تھا لیکن اگر پارلیمانی جماعتوں کے قائدین سے اس حوالے سے فون پر مشاورت ہوتی تو یہ زیادہ بہتر ہوتا۔ وفاقی حکومت کے بعض نرالے فیصلوں میں امداد کی اپنی جماعت کی نگرانی میں تقسیم کا فیصلہ بھی نرالا ہی قرار پائے گا، اس پر نہ صرف تنقید ہوگی بلکہ عوام کی ایک بڑی اکثریت محرومی کی شکایت کرے گی جس سے سیاسی طور پر بھی نقصان کا اندیشہ ہے۔ امداد کی تقسیم اور راشن کی سپلائی کا عمل شفاف ہونا چاہئے، اس عمل کو شکوک وشبہات اور سیاسی آمیزش سے دور رکھنا بہتر ہوگا۔ صوبائی حکومت نے جو منصوبہ تیار کیا ہے یہ قابل عمل اور احسن ہے، اس نمونے کی ملکی سطح پر تقلیدکی جانی چاہئے، یکساں اور شفاف پالیسیاں ان حالات میں بھی اختیار نہ کی گئیں تو آخر کب کی جائیں گی۔

مزید پڑھیں:  تزئین و آرائش بعد میں ،پہلے شہر بچائو