4 50

وکھری ٹائپ کے لوگ

عالمی ادارہ صحت کے تازہ ترین جاری کئے جانے والے اعداد وشمار کے مطابق اس وقت تک دنیا بھر میں کروناوائرس سے 33ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور مریضوں کی تعداد سات لاکھ ہے، رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سترہ لاکھ امریکی ہلاک ہوسکتے ہیں۔ فرانس، سپین اور اٹلی میں روزانہ تین سو سے آٹھ سو افراد ہلاک ہورہے ہیں، کرۂ ارض پر جاری موت کے اس رقص کی وجہ سے دنیا سب مسائل پریشانیاں بھول کر صرف اور صرف کرونا کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ پاکستان میں مریضوں کی تعداد اب تک 1900تک پہنچ چکی ہے، صرف خیبر پختونخوا میں 221سے زائد افراد کرونا وائرس کے مہلک مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں! اس پریشان کن صورتحال سے چین باہر آچکا ہے، دنیا کو چینیوں کے تجربے سے فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے باقی دنیا میں جو کچھ بھی ہورہا ہے وہ اپنی جگہ لیکن وطن عزیز میں صورتحال اس حوالے سے بہت زیادہ پریشان کن ہے کہ ابھی تک لوگ کرونا وائرس سے پوری طرح متعارف ہی نہیں ہوئے، ان کے روئیے دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ اس وقت ہمیں کتنی خطرناک صورتحال کا سامنا ہے۔ حکومتی اداروں کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود یہاں ہر شخص اپنا اپنا راگ الاپ رہا ہے، خیبر پختونخوا کے بہت سے شہروں میں ابھی تک لوگوں کو مکمل طور پر گھروں تک محدود نہیں کیا جاسکا، گھروں تک محدود ہونا تو ایک طرف رہا مریض قرنطینہ سے فرار ہورہے ہیں، صوبہ پنجاب کے ضلع لیہ میں قرنطینہ قرار دئیے گئے تبلیغی مرکز میں موجود ایک شخص نے فرار ہونے کی کوشش کی، موقع پر موجود پولیس آفیسر نے جب اسے روکنے کی کوشش کی تو اس نے چاقو کے پے درپے وار کرکے پولیس آفیسر کو شدید زخمی کر دیا، دنیا کرونا وائرس کیخلاف جنگ میں مصروف ہے اور ہم اس مہلک وائرس کیساتھ ساتھ جہالت سے بھی مصروف پیکار ہیں! طرف سوشل میڈیا پر کرونا وائرس کی تکرار اس تواتر سے جاری ہے کہ لوگ نفسیاتی امراض کا شکار ہونے لگے ہیں۔ ایک نوجوان نے کرونا کی وجہ سے شادی میں تاخیر پر اپنی منگیتر کو زہر پلاکر موت کے گھاٹ اُتار دیا ہے! اسی طرح کراچی میں ایک شخص لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر میں بیٹھے بیٹھے کرونا کے خوف کا شکار تھا اس کی بیوی کا کہنا ہے کہ وہ مکمل طور پر صحت مند تھا لیکن ایک پڑوسی نے اسے کہا کہ وہ تو کرونا کا مریض ہے، ایک طرف بیروزگاری، معاشی پریشانیاں اور اوپر سے کرونا کا خوف اس نے خودکشی کر ڈالی! خیبر پختونخوا کے بہت سے علاقوں میںدفعہ 144کی خلاف ورزی بھی ہو رہی ہے اور پولیس کیساتھ ہاتھا پائی کا عمل بھی جاری ہے بہت سے دکاندار اب بھی کرونا وائرس کو حکومت کا ڈرامہ قرار دے کر دکانیں کھولنے پر اصرار کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی دکانیں کھولنے کا مشورہ دیتے ہیں، اس صورتحال کی وجہ سے پولیس بھی پریشان ہے اور حکومت بھی، اس حوالے سے گرفتاریاں بھی کی جاری ہیں۔ یہ ساری وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے کرونا وائرس کا پھیلاؤ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جارہا ہے اور اگر خدا نخواستہ یہ جن بے قابو ہوگیا تو بہت سی انسانی جانیں ضائع ہوجائیں گی۔ لوگوں کے حکومت کے حوالے سے تحفظات اپنی جگہ لیکن اگر یہ علمائے کرام کی ہدایات پر بھی عمل نہیں کر تے تو پھر اسے کیا نام دیا جائے؟ علمائے کرام قرآن وحدیث کی روشنی میں بات کرتے ہیں جن پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔ ایک طرف تو یہ حالات ہیں اور دوسری طرف چیئرمین ٹاسک فورس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن کا کہنا ہے کہ حالات کو بگڑتے دیکھ رہا ہوں، کرونا وائرس کے مریضوں کی جو تعداد بتائی جارہی ہے وہ درست نہیں ہے، مریضوں کی اصل تعداد زیادہ ہے، کرونا وائرس کے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کئے جائیں تاکہ صحیح صورتحال سامنے آسکے۔ کرونا وائرس کے حوالے سے واضح ہدایات کے باوجود پشاور شہر کے گنجان آباد گلی کوچوں میں قائم دینی مدارس کو ابھی تک بند نہیں کروایا جاسکا، گھروں میں قائم بہت سے مدارس ایسے ہیں جن کا حکومت کے پاس کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے، اب یہ والدین کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس حوالے سے ضروری اقدامات کریں۔ اس مرض کی سنگینی سے بے خبری کا یہ عالم ہے کہ نوشہرہ میں قائم ایک آئسولیشن وارڈ سے ایک مریض تیسری منزل سے مسجد کی چھت پر کود کر فرار ہوگیا پولیس نے اسے گرفتار کرکے دوبارہ وارڈ منتقل کر دیا جب اس کا دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا تو وہ خوش قسمتی سے منفی آگیا، اب وہ ٹیسٹ منفی آنے کی خوشی میں بستر پر چھلانگیں لگانے لگا جب اس سے وارڈ سے فرار ہونے کی وجہ پوچھی گئی تو اس نے کہا کہ سیل فون کا چارج ختم تھا چارجر بھی نہیں تھا، بہت زیادہ بور ہو رہا تھا اس لئے وارڈ سے بھاگ نکلا، لو کرلو گہل! اس ساری صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کیلئے تاجر بھی لنگر لنگوٹ کس کر میدان میں آچکے ہیں، ذخیرہ اندوزی کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے جس کی وجہ سے مہنگائی بھی روزبروز بڑھ رہی ہے۔ آٹے کا مصنوعی بحران بھی پیدا کیا جا رہا ہے، دنیا صرف کرونا وائرس کیخلاف لڑ رہی ہے اور ہماری جنگ بہت سی بیماریوں کیخلاف ہے کیونکہ ہم وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں۔

مزید پڑھیں:  جامعات کے ایکٹ میں ترامیم