2 121

عجیب رنگ میں اب کے بہار گزری ہے

فروری، مارچ، اپریل کے مہینے وطن عزیز اور دنیا کے بہت سارے دیگر ملکوں میں جشن بہاراں میں گزارے جاتے تھے۔ پہاڑوں کے دامن’ وادیوں اور صحراؤں میں قدرتی پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو قدرت اور حسن فطرت سے محبت رکھنے والوں جمال پرستوں کیلئے سرمستی اور دیوانگی کے دن ہوتے تھے’ بقول شاعر
موسم بدلا’ رت گدرائی’ اہل جنوں بے باک ہوئے
لیکن اس دفعہ تو عجب طرح سے بہار آئی اور آج اپریل کا پہلا ہفتہ ہے’ گویا گزر رہا ہے اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہو رہی۔ کیونکہ دنیا اچانک خاموش سی ہوگئی ہے’ سڑکوں پر اژدھام اچانک رک سا گیا ہے’ سکولوں’ کالجوں اور جامعات کی سرگرمیاں اور نوجوان طلبہ وطالبات کی زندگی کی رعنائیوں اور رونق سے بھرپور چہکیں’ بچوں کی سکول آتے جاتے شور شرابہ اور معصوم شرارتیں’ سب غائب سی ہوگئی ہیں۔ جان واقعی پیاری ہے’ جان ہے تو جہان ہے’ لہٰذا بڑے چھوٹے سب گھروں میں دبک سے گئے ہیں، البتہ اس خاموشی کے باوجود بہار کی خوشبو حساس لوگوں کے نتھنوں میں سے گزرتے ہوئے شام جاں ہوتی ہے تو ضرور یاد دلاتی ہے کہ بہار آئی ہے اور ہاں بہار کی یاد مختلف پرندوں کی کھنکتی چہکتی آوازوں سے بھی آرہی ہے۔ گھر کے برآمدے میں یا چھت پر چڑھ کر دیکھتا ہوں کہ پرندوں کے جوڑے اب کی بار فضاؤں میں انسان کے ہاتھوں پیدا کردہ آلودگی اور شور وغل سے پاک ماحول میں اپنے مستقبل کی فکر میں کتنی محبت چاہت اور خلوص کیساتھ تنکے اکٹھا کر کرکے آشیانے بنانے میں مصروف ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر انسان ڈالر’ یورو’ پاؤنڈ’ روپے یا سونے چاندی کی دھاتوں کو اپنی تجوریوں میں رکھنے کے شوق میں فطرت کیخلاف جا کر حسن فطرت اور نظام قدرت کو چھیڑنے کی سنگین غلطیاں نہ کرتا تو آج اس وباء سے کتنا محفوظ رہتا۔
ساٹھ کے عشروں میں مغرب کے کئی ایک سوشیالوجسٹس اور ہیومنسٹس نے تنبیہ کی تھی کہ سائنس کے ”کرشمے” جس انداز واطوار سے آگے بڑھ رہے ہیں یہ بہت جلد انسان کے اپنے ہاتھوں اپنے لئے ہلاکت کا باعث بنے گا۔ کیمیاوی کھاد سے لیکر کیمیائی وحیاتیاتی ہتھیارں تک سب انسان کے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہی تو ہے۔ اسی سائنسی ترقی کے سبب مغرب جو معاشرہ وکلچر وجود میں آیا اس کی بنیاد مادیات کے سوا کسی اور چیز پر نہ تھی۔ اس تہذیب وثقافت میں انسان کی روحانی تسکین کیلئے کوئی غذا تھی ہی نہیں۔ علامہ محمد اقبال نے آج سے اسی برس پہلے کتنا صحیح مشاہدہ کیا تھا’ مغرب کا اور مغربی معاشرے کا کہ جن خطوط وبنیادوں پر اے مغرب کے رہنے والو تم نے اپنا معاشرہ تشکیل دیا ہے ایک دن یہ بہت بری طرح اپنے ہی وزن کے بوجھ تلے دب کر دھڑام سے ایسا گرے گا کہ اپنے ساتھ بہت سارے بے گناہ اور معصوموں کو بھی ساتھ لے ڈوبے گا۔
سنا ہے کہ چین میں اب کہیں جا کر کتے، بلیوں اور چمگادڑوں کے گوشت کو بیچنے اور کھانے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ اسلام نے روزاول سے حلال وحرام چیزوں کو واضح طور پر بیان کرتے ہوئے الگ کیا ہے۔ درندوں، مردار خور اور دیگر کوائف کے سبب بہت سارے جانوروں کا گوشت حرام قرار دیا ہے کیونکہ یہ انسان کی جسمانی و روحانی سلامتی کیخلاف مواد کے حامل ہوتے ہیں۔ اب بھی انسانیت اسلام کے جائز وناجائز کی طرف رجوع کرے تو بہت کچھ بجا جاسکتا ہے اور بہاروں کا لطف اُٹھایا جاسکتا ہے۔
کیا کرونا کی وباء (اللہ تعالیٰ اس کو جلد ازجلد ختم کردے) کے بعد دنیا میں موجودہ استحصالی سرمایہ دارانہ مبنی بر سود نظام چلتا رہے گا’ کیا دنیا کے مٹھی بھر لوگوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ اربوں انسانوں کے بنیادی حقوق (روٹی’ کپڑا’ مکان) کو اپنے جلب زر کے ہوس پر پائمال کردیں۔ کیا انسان کی فطرت کو اللہ تعالیٰ کے اس وسیع کائنات لامحدود نعمتوں سے عدل انصاف کی بنیاد فطرت کی خوبصورتیوں سے لطف اندوز ہونے کا اور اللہ تعالیٰ کی بندگی میں زندگی گزارنے کا حق نہیں ملنا چاہئے۔ کیا انسان کے اندر انسیت کے جذبات کو بیدار نہیں ہونا چاہئے۔ کیا امریکہ اورچین کے درمیان معاشی جنگ میں پوری انسانیت کو ان کے گرم کردہ چکی کے پاٹوں کے درمیان پستے ہی رہنا چاہئے۔ کیا اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک کو پورا مشرق وسطیٰ یرغمال بنانے کیلئے مغرب وامریکہ کا مکمل سپورٹ ہونا چاہئے۔ اور کیا مسلمان ملکوں کو ایک اللہ’ ایک رسولۖ’ ایک قرآن اور ایک حرم پاک کے باوجود ستاون ملکوں کی صورت میں تقسیم رہنا ہی چاہئے۔ کیا پیٹرول کی دولت سے مالامال عرب ممالک کو غریب اسلامی ملکوں کے مزدوروں کیساتھ ایسا ہی سلوک کرتے رہنا چاہئے۔ کیا ان کی دولت میں غریب اسلامی ملکوں کے غرباء کا زکوٰة وصدقات میں بھی حصہ نہیں بنتا۔ شاید ان ہی لوگوں کے ”اعمال” کے سبب بیسویں اور اکیسویں صدی میں پہلی دفعہ حرمین الشرفین اپنے عشاق کی راہیں دیکھ رہے ہیں، عرب ملکوں کے درمیان شام اور یمن کے معاملات کے حوالے سے جو رویہ سامنے آیا اور اسی طرح ایران نے شام اور یمن میں جو کردار ادا کیا، عراق کی داستان تو تاریخ کے حوالے ہے، نہیں! اب سب کچھ بدلنا چاہئے اور انشاء اللہ بدل کے رہے گا۔ بس اللہ تعالیٰ کی قدرت کا انتظار کرنا چاہئے اور دعا کرتے رہنا چاہئے کہ یہ وباء جلد ازجلد اور قدرت کے کن فیکون کی بدولت ختم ہو اور فطرت پسندوں کو ایک مہلت پھر بہاروں سے لطف اندوز ہونے کی ملے اور خدا نہ کرے کہ
فصل بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے

مزید پڑھیں:  اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہو شیار