5 70

انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کے موسم کے بعد

امریکہ کے بعد اب برطانیہ نے بھی کورونا کے حوالے سے چین کی جانب روئے سخن کیا ہے، گوکہ برطانیہ نے ابھی تک امریکہ کی طرح کورونا وائرس کی تیاری کا الزام براہ راست چین پر عائد نہیں کیا مگر امریکہ اور برطانیہ کے طرزِتخاطب میں معنی خیز مسابقت پائی جاتی ہے۔ برطانیہ کے وزیرخارجہ ڈومینک راب نے کہا کہ چین سے پھیلنے والے کورونا وائرس کے ابتدائی دنوں کا گہرائی سے جائزہ لینا ہوگا اور چین کو اس حوالے سے سوالوں کا جواب دینا ہوگا۔ دنیا جاننا چاہتی ہے کہ چین میں ابتدائی دنوں میں کیا ہوا؟ برطانیہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد لاکھوں میں اور مرنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ برطانیہ میں اس وقت بھی کاروبارحیات معطل ہے اور شہر ودیہات مکمل لاک ڈاؤن کا شکار ہیں۔ برطانیہ کا شہزادہ چارلس اور وزیراعظم بورس جانسن کورونا کا شکار ہونے کے بعد دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ رہے ہیں، امریکہ کا حال بھی اس سے چنداں مختلف نہیں۔ اس وقت امریکہ بھی کورونا کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ملکوں میں شامل ہے۔ صدر ٹرمپ بھی اپنا کورونا ٹیسٹ کرانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ امریکہ کی کئی ریاستوں کے کاروباری، ثقافتی، سیاحتی، مذہبی مراکز ویران ہو چکے ہیں۔ امریکہ نے بہت پہلے ہی کھل کر چین پر وائرس کی تیار ی کا الزام عائد کیا تھا اور اب بھی امریکہ ایک تواتر کیساتھ یہ الزام دہراتا چلا آرہا ہے۔ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر دھمکی آمیز انداز میں خبردار کیا ہے کہ اگر وائرس کے پھیلاؤ میں چین کے ملوث ہونے کا ثبوت ملا تو چین کو اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔ چین نے روزاول کی طرح ایک بار پھر امریکی الزام کو مسترد کیا ہے۔ اس سے پہلے چین کی طرف امریکہ پر ووہان میں کورونا بھیجنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، چینی حلقوں نے اسے برطانوی لیبارٹریز میں تیار کرنے کی بات بھی کی تھی، اب امریکہ اور برطانیہ اس معاملے میں یک زبان ہوتے جا رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ ابھی الزام درالزام کا یہ سلسلہ طول پکڑے گا اور کورونا وباء پر قابو پالیا گیا تو اس کے بعد بھی الزامات کا یہ سلسلہ نہ صرف زبانی طور پر جاری رہے گا بلکہ یہ نئی عالمی سیاست کے خدوخال اُبھارنے کا باعث بنے گا۔ کورونا ایک نئی سرد جنگ کی بنیاد بنتا جا رہا ہے۔ یہ دنیا کے برتاؤ اور تعلقات کے انداز کو تو تبدیل کر رہا ہے مگر یہ سوال بھی اب اہمیت اختیار کرتا جا رہا ہے کہ کہیں یہ وائرس دنیا کے نقشے پر بھی اپنے اثرات مرتب کرنے کا باعث تو نہیں بنے گا؟ یونی پولر دنیا میں دہشتگردی کے نام پر انسانوں اور انسانیت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کیا گیا۔ اس کیلئے کبھی القاعدہ تو کبھی داعش کے ”سینڈبیگ” کھڑے کئے گئے۔ نائن الیون نے اس خطرے کی بنیاد پر دنیا کا نظام اور برتاؤ کے انداز کی تشکیل نو کی۔ نائن الیون سے پہلے دنیا ایک کھلی فضا کی مانند تھی اس کے بعد حفاظتی اقدامات، پابندیوں کے نام پر اسے باڑھ بندی اور حصاروں سے بھر دیا گیا۔ امیگریشن کے قوانین بدل دئیے گئے، لوگوں کے حق سفر پر پابندیاں لگیں۔ شہریت کے اصول اور ضوابط تبدیل کر دئیے گئے۔ اس ساری صورتحال پر یہ شعر صادق آتا تھا۔
مقید کر دیا سانپوں کو یہ کہہ کر سپیروں نے
یہ انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کا موسم ہے
کورونا کے اُبھرتے ہوئے نئے چیلنج نے انسانوں کو انسانوں سے ڈسوانے کے اس دور کو اختتام کی حد تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ انسانیت کو اصل خطرہ انسانوں سے نہیں ایک چھوٹے سے وائرس سے ہے، اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ایک نئی حقیقت کے اُبھرنے کے بعد اس سائے کا تعاقب کرنا اب دنیا کی مجبور ی ہو کر رہ جائے گا۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کورونا بحران کو چین کی کلائی مروڑنے کیلئے پوری طرح استعمال کررہے ہیں۔ چین کا اقتصادی محاصرہ اور مقاطع کرکے اس کی معیشت کو بری طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ بہت سی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو چین سے اپنا کاروبار سمیٹنے کیلئے بھی مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اگر امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی بلاک نے کورونا بحران کو عالمی سیاست کیلئے استعمال کرنے کا راستہ اختیار کیا تو یہ ایک نئے بحران کو جنم دینے کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکہ اور برطانیہ اس بات پر حیرت زدہ ہیں کہ چین نے اس بحران پر کس طرح اتنا جلدی قابو پایا اور اموات کا گراف بھی نچلی سطح پر رکھا۔ اس کا جواب انہیں چین اور اپنے نظام ہائے حکومت میں تلاش کرنا چاہئے۔ چین ایک سخت گیر نظام کا حامل ہے، انہوں نے جب یہ دیکھا کہ لاک ڈاؤن کے سوا اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تو انہوں نے ووہان میں گھروں کو باہر سے تالے لگا کر لاک ڈاؤن کو کامیاب بنایا۔ انہوں نے اپنا فیصلہ منوانے میں کسی تذبذب اور تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس امریکہ اور برطانیہ جمہوری طرزحکومت کے حامل ملک ہیں اور جمہوریت میں نہ تو فوری فیصلہ سازی ہوتی ہے اور نہ فیصلوں کو آمرانہ طور طریقوں سے منوایا جاتا ہے۔ جس بھی ملک نے اس خطرے کو مذاق سمجھ کر فیصلوں میں تاخیر کی اس نے خمیازہ بھگت لیا، جن ملکو ں نے اگر مگر کے چکروں میں پڑے بغیر سرعت کیساتھ فیصلے کئے وہ اپنے نقصان کو کم ازکم سطح پر رکھنے میں کامیاب رہے۔ اس سیدھے اور آسان فارمولے کو پاکستان کو بھی ہر لمحہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ لاک ڈاؤن کو اس انداز سے نرم کرنا چاہئے کہ عوام احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں، اسلئے رمضان المبارک میں حکومت کو لاک ڈاؤن کے حوالے سے اس اصول پر سختی سے کاربند رہنا چاہئے۔

مزید پڑھیں:  الٹے بانس بریلی کو ؟