2 154

قصہ خوانی

پشاور شہر کے قصہ خوانی بازار کی وجہ تسمیہ بتانے والے کہتے ہیں کہ کسی زمانے میں یہاں کے پیشہ ور قصہ خوان یا داستان گو اپنے ڈیرے جماکر یا دکانیں سجا کر قصے کہانیاں سننے کے شائقین کو اپنے مخصوص لب ولہجے میں قصے کہانیاں سنا کر محظوظ کیا کرتے تھے، قصہ خوانی کی وجہ تسمیہ بتانے والوں کا ایک گروہ اپنی کتابوں یا مقالوں میں یہ بات بھی کر دیتے ہیں کہ قصہ خوانی کا یہ لفظ ‘کسہ خونی’ سے نکلا ہے، وہ کسہ خونی کا تجزیہ پیش کرتے وقت کہتے ہیں کہ ‘کسہ’ برساتی نالہ یا آبی گزرگاہ کو کہتے ہیں اور کسی زمانے میں یہاں ایک ایسا برساتی نالہ یا آبی گزرگاہ تھی جس کا پانی طوفان باد وباران یا برسات کے موسم میں چڑھتا تو کسی نہ کسی کی جان لے کر رہتا، ان دو متضاد باتوں میں سے کونسی سچ ہے اور کونسی جھوٹ، ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں، ہم آج آپ کو قصہ خوانی بازار کی کہانی خود اس کی زبانی سنانے بیٹھے ہیں، وہ کہانی جو اس بازار کے ‘کسہ خونی’ ہونے کی بھی انمٹ گواہی بن کر ہم اور آپ تک پہنچی ہے، یہ کہانی عین آج کے دن یعنی 23اپریل1930 کے دوران قصہ خوانی بازار میں ‘کسہ خونی’ کا منظرنامہ بن کر اُتری تھی، جسے 23اپریل1930 کو یوم شہیدان قصہ خوانی کے عنواں سے ہر سال دہرایا جاتا رہا ہے، 80کی دہائی میں راقم السطور نے اس کہانی کو اپنے ایک ناولٹ ‘مہندی’ میں پینٹ کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ناولٹ چھپ کر منصہ شہود پر آیا، پسند کیا گیا، اس پر تبصرے بھی ہوئے اور کچھ مہربانوں نے اس کے تراجم بھی کئے، لیکن علاقائی ادب وثقافت کو کتابی شکل میں چھاپنے کے ٹھیکیداروں نے
کب میرا نشیمن اہل چمن گلشن میں گوارا کرتے ہیں
غنچے اپنی آوازوں میں بجلی کو پکارا کرتے ہیں
کے مصداق اس کی جانب دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا، اگر وہ چاہتے تو جو کہانی اس ناولٹ میں پیش کی گئی ہے اسے فلما کر 23 اپریل1930 کے دوران قصہ خوانی بازار کو ‘کسہ خونی’ میں تبدیل کئے جانے کے اس واقعہ کو امر بھی کر سکتے تھے، لیکن سرکاری گرانٹ اور صاحبان قلب ونظر کے چندوں کے بل پر اپنا آپ منوانے والوں نے ایسا کرنا کبھی بھی ضروری نہ سمجھا، جس کا راقم السطور کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑا، کیونکہ جب تک اس کی سانس کی ڈوری باقی ہے وہ موقع پاکر اپنے نہاں خانہ شعور میں دکھوں اور غموں کی دھول سے اٹی پڑی اس کہانی کو گاہے گاہے باز خوان ایں قصہ پارینہ را کے مصداق سناتا رہتا ہے، آج 23اپریل ہے، آج نہ صرف قصہ خوانی بازار میں فرنگی سامراج کے اشارے پر پشاور کے نہتے عوام پر اس کی سپاہ کی تابڑتوڑ چلتی گولی چلنے اور 1930 کے شہیدان قصہ خوانی کو خراج تحسین پیش کرنے کا دن ہے بلکہ عالمی سطح پر اقوام متحدہ کے زیراہتمام 23اپریل کا یہ دن کتاب، کتب بینی اور اشاعت کتب کے حوالہ سے بھی منایا جاتا رہا ہے، ہر سال پشاور کے علمی ادبی سیاسی اور سماجی حلقہ فکر کے لوگ، گروہ درگروہ یا جتھہ در جتھہ قصہ خوانی بازار کے وسط میں شہیدان قصہ خوانی بازار کو خراج عقیدت پیش کرنے پھولوں کی چادریں چڑھانے، دھواں دھار تقریریں کرنے اور فوٹوسیشن رچانے آتے ہیں اور یوں 23اپریل کا سورج یہ سارا تماشا دیکھ کر شام ہوتے ہوتے غروب ہوجاتا ہے، آہ کہ یوم شہیدان قصہ خوانی منانے والے اس بار کرونا وائرس کی یلغار کی وجہ سے ایسا نہیں کر پارہے، اس لئے میں آج کے دن کی مناسبت سے اپنے ناولٹ ‘مہندی’ کی کہانی کا خلاصہ پیش کر دیتا ہوں تاکہ یوم شہیدان قصہ خوانی کے علاوہ کتاب اور اشاعت کتب کے عالمی دن منانے کی شرط بھی پوری ہوجائے۔ ناولٹ کی کہانی کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ”شانو کی سکھیاں اس کی شادی کی خوشی میں ڈھولک کے گیت گارہی ہیں، اری یہ کیسے گھسے پٹے ماہئے سنا رہی ہو، کوئی نیا گیت گاؤ ری، باجی موتیا نے کہا، اور لڑکیاں بالیاں ڈھولک کی تال پر فرنگی راج کا سیاپا کرنے لگیں۔ (ترجمہ) اوپر تیرا جہاز فرنگی، نیچے تیرا راج، توپوں سے نہ مار فرنگی، توپ ہووی تاراج” شانو کا بابل دوسرے کمرے میں بیٹھا ڈھولک کے گیت کی تال پر سر دھن رہا تھا، کہ ایسے میں، امتو آپا نے آکر اسے بتایا کہ شہرسے جو تم دیگوں کا سامان لائے ہو، اس میں مہندی نہیں مل رہی، ارے یہ کیا، میں مہندی لانا ہی بھول گیا، کیا میری شانو بغیر مہندی لگائے ڈولے چڑھ جائے گی، وہ اٹھا اور مہندی لانے کی غرض سے پشاور شہر کے قصہ خوانی بازار پہنچ گیا، مگرآج تو سارا بازار بند ہے۔ پشاور کی تاجر برادری نے انگریزی سامراج کے ظلم وستم کیخلاف ہڑتال کررکھی ہے اور شہریوں کا بپھرا ہوا جلوس انگریز سامراج کیخلاف نعرے لگاتا قصہ خوانی بازار کے وسط میں پہنچ گیا ہے، پھر کیا ہوا، اس ساری کہانی کو ایک کالم کے کینوس پر پینٹ کرنا ممکن نہیں، سو ہم صرف اتنا بتانے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ایک شانو کا بابل ہی نہیں نہ جانے کتنی بیٹیوں کے باپ، کتنی سہاگنوں کے سہاگ، کتنی ماؤں کی گودیں ویران ہوگئیں، قصہ خوانی بازار کے اس کسہ خونی میں، جن کی یاد باقی رہ جاتی اگرکتابوں کی اشاعت کے دن ہم ایسی کتب شائع کرنے کے عہد کو وفا کرنے کی تجدید کرتے رہتے، مگر اس کا کیا کیا جائے کہ ہم اپنے قلم ہوتے ہاتھوں کی جانب دیکھ کر کہتے رہ جاتے ہیں کہ
اوپر تیرا جہاز فرنگی، نیچے تیرا راج
توپوں سے نہ مار فرنگی، توپ ہو وی تاراج

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ