2 153

مرض بڑھتا گیا جوں جوں وقت گزرا

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے رکن ممالک کو خبردار کیا ہے کہ پابندیاں اُٹھانے سے دنیا میں وائرس تیزی سے پھیل سکتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے انتباہ کیا ہے کہ یہ لاپرواہی کا وقت نہیں، دنیا والوں کو خود کو آگے ایک نئی طرززندگی کیلئے تیار کرنا ہوگا۔ ماہرین کے خدشات ایک ایسے وقت پر سامنے آرہے ہیںجب امریکہ سمیت کئی یورپی ممالک نے لاک ڈائون میں نرمی کا آغاز کر دیا ہے۔ پاکستان میں لاک ڈائون میں نرمی کردی گئی ہے اور سمارٹ لاک ڈائون کی سڑکوں سے لیکر جنازگاہوں تک جس طرح دھجیاں اڑائی جارہی ہیں وہ نہایت خطرناک ہیں، لوگوں کو اس امر کا بالکل بھی احساس اورپرواہ نہیں کہ وہ حفظان صحت کی ہدایات کے تحت ایک دوسرے سے فاصلہ رکھیں۔ اس بناء پر بجا طور پر اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ ایسے میں کورونا وائرس کی دوسری لہر پھیل سکتی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں لاک ڈائون اب بے معنی نظر آتا ہے اور روزانہ اموات کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، جوں جوں ٹیسٹ کی سہولیات آبادی کے مختلف حصوں کو میسر آئیں گی تو ں توں صورتحال سنگین سے سنگین تر ہو کر سامنے آنے کا خدشہ ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ بہرحال اہمیت کا حامل ہے کہ ایک جانب کورونا سے خطرہ ہے تو دوسری جانب بھوک بھی ناقابل برداشت عمل ہے، یہ ایک مناسب سوال ہے لیکن معاشی سرگرمیوں کی اجازت ملنے کے بعد سڑکوں اور بازاروں میں جو صورتحال نظر آرہی ہے، آمدورفت کی بندش ختم کرنے کے بعد سڑکوں پر جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے اس سے لگتا یہ ہے کہ ہم لوگوں نے کورونا کا انتخاب جانے انجانے میں کرلیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جہاں غیرضروری اجتماعات اور لوگوں کے غیرضروری طور پر یا ایسی ضرورت جسے معطل کیا جاسکے کو کچھ عرصے کیلئے ترک نہ کریں اور ایک خاص طریقہ کار کے تحت ہی کاروباری سرگرمیاں نہ کی جائیں تو حالات گمبھیر ہو سکتے ہیں۔ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ کس دن کونسی دکانیں کھلیں گی اور کتنے وقت کیلئے کھولی جائیں گی، عملہ کا کورونا ٹیسٹ حفاظتی اقدامات کے تحت صارفین کی خدمت، سینیٹائزر گیٹ لگانے اور اسی سے گزرنے، رش سے بچنے، فاصلہ رکھنے جیسے اقدامات یقینی بنانے پر اب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ حکومت اور کاروباری طبقہ کیساتھ ساتھ عوام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ان اصولوں پر سختی سے کاربند ہوں۔ علمائے کرام بھی مساجد میں نہ صرف مروجہ طریقہ کار اختیار کرنے کی ذمہ داری نبھائیں بلکہ لوگوں کو بار بار مساجد اور مساجد سے باہر بھی خود کو اور دوسرے لوگوں کو متاثر ہونے سے بچنے اور بچانے کے فرض کا احساس دلائیں۔ امر واقع یہ ہے کہ دنیا بھر کے ترقی پذیر ہی نہیں ترقی یافتہ ممالک بھی اس وباء کا مقابلہ کرنے میں بے بس نظر آرہے ہیں۔ ایسے میں لوگوں کی حکومت پر تنقید فطری امر ہے، کسی بھی ملک کا نظام صحت اس اچانک اور نئی وباء کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار نہیں پایا گیا، اس حد تک تو دنیا کے ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے درمیان کافی مماثلت ہے البتہ وباء کے دنوں میں کس ملک میں احتیاطی تدابیر کا نفاذ اور اس پر عوام کی طرف سے عملدرآمد میں نمایاں فرق ہے اگر اس لحاظ سے دیکھا جائے تو صوبائی دارالحکومت پشاور بدترین مثال پیش کر رہا ہے۔ پاکستان میںتو صحت کی عام سہولیات کا بھی فقدان ہے بلکہ نا پید قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں ٹیسٹوں کی ناکافی سہولیات خاصے تشویش کی بات ہے، ڈاکٹروں اور ان کے معاونین کو حفاظتی لباس کی اب بھی کمی ہے جس کے باعث طبی عملہ بھی متاثر ہورہا ہے، صورتحال اس امر کا متقاضی ہے کہ سرکاری اور نجی شعبہ دونوںموجودہ صورتحال میں سہولیات میںاضافہ کس طرح کر سکتے ہیں اس پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے۔ احتیاطی تدابیر سے سراسر لاپرواہی کی اب گنجائش نہیں، اس پر خصوصی اور فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ ممکن بھی ہے اور عالمی ادارہ صحت بھی سب سے زیادہ اسی پر زور دے رہا ہے۔ کورونا عالمگیر وباہے صرف احتیاط ہی بچائو کا ذریعہ ہے۔

مزید پڑھیں:  ایک آزاد پرندہ ہوں جہاں چاہوں اڑوں