1 113

سمارٹ لاک ڈاؤن ناکام تجربہ ناکام تصور

وقت نے ثابت کیا کہ سردست درپیش بحران میں سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح محض ایک تصور اور خیال ہے جس کا پاکستان کی سماجی روایات کے تناظر میں عمل کی دنیا سے کوئی تعلق نہیں۔ لاک ڈاؤن ہوتا ہے یا نہیںہوتا اس وقت معاملہ یہ ہے جبکہ وقت نے ثابت کیا کہ سمارٹ لاک ڈاؤن نام کی بیچ کی چیز پاکستانی عوام کے مزاج اور عادات کے مطابق قطعی قابل عمل نہیں۔ چیلنج اس قدر حقیقی اور خطرہ اس حد تک خوفناک ہے کہ آدھا تیتر آدھا بٹیر کی اس پالیسی سے مقابلہ ممکن نہیں رہا۔ یکم رمضان المبارک کو سمارٹ لاک ڈاؤن کے پہلے دن ہی عوام جس طرح جشن منانے کے انداز میں بازاروں اور شاہراہوں پر نکل کھڑے ہوئے اس نے اس تصور کو بے معنی اور اس پالیسی کو ناکامی کا چلتا پھرتا اشتہار بنا دیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر صحت ڈاکٹر ظفر مرز ا کو کہنا پڑا کہ پہلے روزے کو عوام نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ عالمی منظر پر نظر دوڑائیں یا ملکی سرحدوں کے اندر کے حالات کا جائزہ لیں راوی کہیں چین نہیں لکھ رہا۔ ہر طرف خطرات کے سیاہ بادل پوری رفتار کیساتھ سروں پر منڈلائے جا رہے ہیں۔ روزانہ کے اعداد وشمار پر نظر ڈالیں تو صرف مرنے اور متاثر ہونے والوں کی تعداد کا فرق نظر آتا ہے، کتنے لوگ کہاں مرے اور کتنے متاثر ہوئے۔ ایسا نہیں کہ کہیں مرنے والوں کی تعداد بالکل کم یاختم ہو کر رہ گئی ہو۔ ڈاکٹروں کی ایک فعال تنظیم ”پیما” کے صدر ڈاکٹر افتخار احمد کا ایک بیان سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ سمارٹ لاک ڈاؤن پاکستان کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتا، ہمیں دوہفتے مزید سخت لاک ڈاؤن کرنا ہوگا۔ حکومت پر تاجر برادری کا دباؤ ہے مگر تاجر استقامت سے کام لیں، لوگ سمارٹ لاک ڈاؤن کی پابندی نہیں کر سکیں گے۔ ڈاکٹر افتخار کا کہنا ہے کہ اس مرض کا حتمی علاج نہیں دوسری طرف ہسپتالوں کی گنجائش کم ہو رہی ہے۔ اس وقت ایک سو ڈاکٹرز سمیت طبی عملے کے دوسو افراد بھی متاثر ہو چکے ہیں۔ اس سے چند دن پہلے سندھ کی خواتین ڈاکٹرز نے ایک پریس کانفرنس میں عوام سے ہاتھ جوڑ کر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی درخواست کی تھی۔ امریکہ جیسے ملک میں اس موذی وباء سے مرنے والوں کی تعداد ترپن ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ ابھی بھی اپنے بھرپور وسائل کے باوجود امریکہ اس بیماری کو کنٹرول یا محدود رکھنے میں ناکام ہے۔ دنیا بھر میں مرنے والوں کی تادم تحریر تعداد دولاکھ آٹھ ہزار چوبیس تک پہنچ چکی ہے اور اس میں ہر لمحے کیساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ اس طرح متاثر ہونے والوں کی تعداد انتیس لاکھ ہو گئی ہے، جانی نقصان میں امریکہ دنیا میں پہلے نمبر پر آچکا ہے۔ پاکستان میں یہ وباء محض کسی دور دیس کا افسانہ یا کسی اور براعظم میں جنم لینے والی کہانی نہیں رہی بلکہ یہ خطرہ پوری طرح ہماری آبادیوں میں داخل ہوچکا ہے اور ہمارے شہر ودیہات میں کسمپرسی میں جنازے اُٹھنے لگے ہیں۔ جہاں عزیر واقارب کو میت کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اُتارنے کی اجازت تو درکنار قریب کھڑا رہنے کی اجازت نہیں۔ بے بسی اور بے کسی کے یہ مناظر دلوں کو دہلا دینے کا باعث بن رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تک دو سو چھپن افراد جان سے گزر چکے ہیں۔ اس فہرست میں کئی نامی گرامی معالج بھی شامل ہیں اور تازہ اضافہ پشاور کے ڈاکٹر جاوید ہیں جو کورونا کیخلاف جہاد کرتے ہوئے اس کی لپیٹ میں آکر جان جانِ آفریں کے سپرد کر گئے۔ ڈاکٹر اس لڑائی کے اگلے مورچے کے سپاہی ہیں۔ وہ اپنے طبی نظام کی صلاحیت کو بخوبی جانتے ہیں، اس لئے وہ ہاتھ جوڑ کر عوام سے احتیاط کرنے کی درخواستیں کر رہے ہیں۔ خدانخواستہ وبا کا یہ جن بے قابو ہوگیا تو ہمارا طبی نظام اس کے مقابلے کی بجائے کلی دیوالیہ ہو جائے گا اور یہ اس معاملے کا سب سے خطرناک پہلو ہے، اسی لئے عوام کو سختی سے گھروں کے اندر رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ وباء ابھی اپنے عروج کو نہیں پہنچی بلکہ تیزی سے بڑھ رہی ہے چونکہ یہاں ٹیسٹنگ کی سہولت پوری طرح موجود نہیں اس لئے متاثرین کی اصل تعداد کا پوری طرح اندازہ نہیں ہو رہا۔ ایک طرف یہ خوفناک حقیقت اور تصویر ہے تو دوسری طرف ہماری تاجر برادری کو رمضان المبارک سے ماضی سے وابستہ یادیں حافظے میں زندہ ہوگئی ہیں۔ رمضان المبارک گراں فروشی اور ناجائز منافع کا ایک بڑا ذریعہ رہا ہے، اس بار لاک ڈاؤن اور پابندیوں کے باعث یہ سلسلہ متاثر ہونے کا اندیشہ ہے اس لئے تاجر برادری حکومت پر لاک ڈاؤن ختم کرنے کا دباؤ ڈالے ہوئے ہے۔ ایک طرف تاجروں کی خواہشات ہیں تو دوسری طرف عوام کے غیرذمہ دارانہ روئیے ہیں جو خطرے کو خطرہ سمجھ کر اپنے طرزعمل پر نظرثانی کو تیار نہیں۔ معمولی سی چھوٹ ملنے پر عوام رسیاں تڑوا کر بازاروں اور سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ اس صورتحال میں معاملات کو عوام کے عقل ودانش اور تاجروں کی خواہشات پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت کو چند ہفتوں کیلئے آدھا تیتر آدھا بٹیر والا نظام ختم کرکے مکمل لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ موجودہ حالات میں پوری قوم مشکلات کا شکار ہے اور کسی ایک طبقے کی مشکلات کو ختم کرنے کے نام پر قوم کو کسی بڑی مشکل کا شکار نہیں کیا جاسکتا۔ حکومت کو کسی تذبذب، تساہل کے بغیر سخت لاک ڈاؤن کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ حکومت نے چند دن سمارٹ لاک ڈاؤن کا تجربہ کر کے دیکھ لیا جس کا نتیجہ متاثرین کی تعداد میں غیرمعمولی اضافے کی صورت میں برآمد ہوا، یہاں تک کہ اس ملک کے معالجین بھی چیخنے پر مجبور ہوئے۔ یہ خوف کی چیخیں نہیں بلکہ نوشتۂ دیوار پڑھ کر پیدا ہونے والے خدشات ہیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی چوری۔۔۔ وفاق اور خیبر پختونخوا میں قضیہ ؟