2 161

مشرقیات

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی فرماتے ہیں: ” اورنگزیب عالمگیر’ صاحب باطن اور صاحب نسبت بزرگ تھے۔اخیر وقت میں عالمگیر نے وصیت کی تھی کہ میرا کفن میری دستکاری کے پیسوں سے بنایا جائے۔ اگرچہ قرآن کریم کی اجرت بھی کچھ موجود ہے اور علماء نے اس کے جواز کا فتویٰ بھی دیا ہے مگر بظاہر یہ ”خدا تعالیٰ کی آیات پر اجرت” (قرآن کے الفاظ کا ترجمہ ہے) کے ضمن میں آتا ہے۔ اس لئے میں نہیں چاہتا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسے کفن میں جا کر ملوں جس میں شبہ ہے۔”
(ملفوظات اشرفیہ جلد26′ ص139)
عالمگیر کے بارے میں یہ بات سب کو معلوم ہے کہ وہ خود اپنے ہاتھ سے قرآن کریم لکھا کرتے تھے۔ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ وہ اس سے حاصل شدہ رقم سے اپنا گزارہ کرتے تھے اور شاید کچھ دستکاری کا کام بھی کرتے ہوں گے۔ مغل بادشاہوں میں تقویٰ کا یہ نمونہ صرف ان ہی کی خصوصیت ہے۔
حضرت تھانوی نے لکھتے ہیں کہ عالمگیر کا ایک خاص خادم تھا۔ اس کا نام محمد قلی تھا۔ عالمگیر نے ایک مرتبہ اس کو آواز دی اور کہا: قلی! وہ فوراً لوٹالے کر حاضر ہوا۔ جس میں وضو کے لئے پانی تھا’ بادشاہ نے وضو کیا۔
اس وقت ایک شخص موجود تھا اس کو حیرت ہوئی کہ بادشاہ نے وضو کا پانی نہیں مانگا تھا’ نہ یہ وقت وضو کا تھا۔ نوکر یہ کیسے سمجھ گیا کہ اس وقت ان کو وضو کے لئے پانی چاہئے۔ آخر اس نے محمد قلی سے پوچھا کہ تم کیسے سمجھے کہ بادشاہ اس وقت وضو کرنا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا کہ میرا نام محمد قلی ہے۔ بادشاہ مجھے ہمیشہ میرے پورے نام سے پکارتے ہیں۔ آج انہوں نے مجھے پکارا تو صرف قلی کہہ کر پکارا اور حضور اکرمۖ کا نام ”محمد” نہیں لیا تو میں سمجھ گیا کہ بادشاہ اس وقت بے وضو ہیں اسی لئے نام مبارک نہیں لیا۔”
جیسا کہ آپ قرآن کریم خود لکھا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے دیکھ کر کہا کہ یہ حرف غلط لکھا گیا ہے۔ اس حرف کو عالمگیر نے اس کے سامنے بنا دیا۔ اس کے جانے کے بعد آپ نے اس پورے ورق کو الگ کردیا اور دوبارہ صحیح کرکے وہی حرف لکھا۔ کسی نے کہا کہ اگر حرف صحیح تھا تو اس کے سامنے غلط کیوں لکھ دیا تھا’ کوئی عذر پیش کردیا جاتا؟ فرمایا:اس سے اس کاحوصلہ پست ہو جاتا۔
(اور شرمندگی ہوتی) پھر وہ کبھی مشورہ دینے کی ہمت نہ کرتا۔ بات یہ ہے کہ میں اپنے مخلص مصلحین کی تعداد کم کرنا نہیں چاہتا۔ ”
(حوالہ بالا’ ص138)
عالمگیر کی بادشاہت کتنی وسیع رقبے پر تھی اس کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ بخارا اور ہرات سے لے کر برما تک جس میں ہندوستان اور پاکستان سب شامل ہیں ان کے زیر نگیں تھے۔ اس کے باوجود ان کے بعض واقعات اتنے حیرت انگیز ہیں کہ ان پر آج یقین کرنا بھی مشکل ہے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت