2 163

چینی سکینڈل تحقیقات میں تاخیر

وزیراعظم کی ہدایت اور وعدے کے باوجود مقررہ تاریخ کو چینی سکینڈل کی تحقیقات کی فرانزک رپورٹ جمع نہ ہونے کی وجوہات سے اگر عوام کو آگاہ کرنے کے بعد وفاقی کابینہ انکوائری کمیشن کو تین ہفتے کی مزید مہلت دیتی تو زیادہ مناسب ہوتا اور شکوک وشبہات وتنقید کی نوبت نہ آتی، بہرحال تین ہفتے کا وقت اتنا زیادہ نہیں جس کا انتظار نہ کیا جا سکے اور تحقیقات سے متعلق شکوک وشبہات کی نوبت آئے۔ تحقیقات کیلئے مزید وقت دینے کی ممکنہ صورت اور وجہ یہی نظر آتی ہے کہ شوگر انڈسٹری میں بدعنوانی اور ہیرا پھیری توقعات سے کہیں بڑھ کر ہوئی۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق اس سکینڈل میں تیس ہزار بروکرز اور آڑھتیوں کے علاوہ ایسے پچاس ہزار غیررجسٹرڈ خریدار کا کھوج لگایا گیا ہے جن میں سے چالیس ہزار نے ٹیکس ریٹرنر بھی جمع نہیں کرائے۔ بہرحال عوام اس امر کے منتظر تھے کہ 25اپریل کو شوگر مافیا کا چہرہ بے نقاب ہوگا اور ان کیخلاف کارروائی واحتساب کا اعلان کیا جائیگا اور کمیشن کو مہلت دیدی گئی، تاخیر والتواء کوئی قابل ذکر بات نہیں سوائے اس اعتراض کے کہ قبل ازیں کے بعض معاملات کی تحقیقات میں ایف آئی اے نے جو پھرتی دکھائی تھی وہ تحقیقات نمائشی تھیں یا پھر قانون کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے جس کی وجہ سے عدالت میں ان رپورٹوں کو اہمیت نہ دی گئی۔ دیرآید درست آید کے مصداق تحقیقاتی رپورٹیں تاخیر سے سہی لیکن ان کا جامع تفصیلی اور قانونی ضرورتوں کے مطابق ہونا اہم بات ہے تاکہ چینی کی خرید وفروخت میں بدعنوانی عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے اور سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچانے کے مرتکب تمام عناصر بے نقاب ہوں۔ مناسب ہوگا کہ معاملے کے تمام پہلوؤں پر تفصیلی غور وخوض کیا جائے اور ایسی رپورٹ پیش کی جائے جو اسقام اور کمزوریوں سے پاک ہو۔ آٹا اور چینی کے سکینڈل میں حقیقی مجرموں تک پہنچنے سے ہی انکوائری کمیشن کی ذمہ داری پوری نہیں ہوگی بلکہ حکومتی مشینری کے فیصلوں اور ذمہ داروں کے نام بھی سامنے آنے چاہئیں جن کی اعانت کے بغیر اتنے بڑے پیمانے پر بدعنوانی ممکن نہ تھی۔ توقع کی جانی چاہئے کہ انکوائری کمیشن جامع رپورٹ میں تمام کرداروں کی نشاندہی کرے گی اور حکومت بلاامتیاز احتساب کی ذمہ داری پوری کرے گی۔
باعث تشویش صورتحال
محکمہ صحت کے مقررکردہ فوکل پرسن اور خیبر میڈیکل یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر نے کورونا وائرس کے حوالے سے خود ویڈیو بیان جاری کیا ہے، کورونا مریضوں کی بڑھتی تعداد اور شرح اموات سے ان کے اعداد وشمار اور دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔ حکومتی اعداد وشمار اور دعوؤں کے برعکس عوام میں اس حوالے سے جو رائے پائی جاتی تھی اور جو اندازے لگائے جارہے تھے فوکل پرسن کے بیان نے اس عامیانہ اندازوں پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے، اب تو صوبائی وزیرصحت کے ٹویٹر بیانات اور اعداد وشمار کا چارٹ بھی کم کم ہی نظر آنے لگا ہے، بہرحال ایک ذمہ دار عہدے پر فائز سینئر اور تجربہ کار ڈاکٹر کے دعوؤں کو رد اسی صورت میں ہی کیا جاسکے گا کہ صوبائی حکومت اپنے دعوؤں کو ثابت کر کے ان کے بیان کو غلط ثابت کرے۔ لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں جاں بحق افراد کی تعداد کی تو تصدیق ہو چکی ہے، اس امر کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ مریضوں کی شرح اموات زیادہ کیوں ہے، بعض ہسپتالوں میں مریض ابتدائی علاج شروع ہوتے ہی جاں بحق کیوں ہو رہے ہیں، ادویات اور طریقہ علاج مناسب نہیں یا پھر کوئی دوسری وجہ ہے جسے سامنے نہیں لایا جا رہا ہے۔ صورتحال روزبروز بگڑتی جارہی ہے اور ڈاکٹروں کا وہ انتباہ اب قریب نظر آنے لگا ہے کہ مریضوں کی تعداد کو ان کیلئے سنبھالنا مشکل ہوسکتا ہے، حکومت بہتر علاج کی سہولت اور انتظامات کی متحمل ہے یا نہیں اور علاج وادویات دریافت ہوا ہے یا نہیں اس سے قطع نظر حکومت کم ازکم عوامی مقامات، بازاروں اور مساجد میں جسمانی فاصلے کو برقرار رکھنے کی پابندی کرانے میں ہی سختی سے کام لے عوام میں سے جو خود احتیاطی کے تقاضوں پر عمل کر رہے ہیں وہ اپنی جگہ جو اب بھی لاپرواہی برت رہے ہیں ان کو ترغیب دینے کا وقت نہیں سختی کا مظاہرہ ہی کارگر ہوسکے گا۔
گورنر کا قابل تقلید اقدام
گورنر خیبر پختونخوا شاہ فرمان نے نادار افراد میں راشن اور مالی امداد کی تقسیم کے موقع پر فوٹو سیشن کی بدعت سے اجتناب کرنے کیساتھ ساتھ جن خیالات کا دردمندی سے اظہار کیا ہے اگر حقیقی معنوں میں حکومتی عہدیدار اور سرکاری عمال اس طرح کا طرزعمل اختیار کریں تو یہ مستحقین کی باعزت مالی مدد اور ان کے عزت نفس کا خیال رکھنے کیساتھ ساتھ ان کے اطمینان کا بھی باعث ہوگا اور ان کو حکومت کے محدود وسیلہ ہونے کی مجبوری کی بھی سمجھ آئے گی۔ امر واقع یہ ہے کہ مستحقین کو سرکاری طور پر امداد دینے کا طریقہ کار مشکل اور اہانت آمیز ہے گورنر نے جو قابل تحسین طریقہ کار اپنایا ہے اس کی تقلید کی جانی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  تجربہ کرکے دیکھیں تو!