2 166

قلم اور کیمرے سے خوفزدہ بھارت

مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست کے بعد حالات وواقعات کو جبر اور بے خبری کے پردوں کو پیچھے چھپانے کی جو رسم شروع ہوئی ہے کشمیر کا صاف گو اور جرأتِ اظہار کا حامل میڈیا اس منظر میں قطعی ناقابل قبول ہوتا جا رہا ہے۔ پانچ اگست کے بعد کسی بھی کشمیری صحافی کی خبر یا تصویر سے ناراض ہو کر فوجی کیمپوں میں پوچھ گچھ کیلئے طلب کرنا اب معمول بن کر رہ گیا۔ کشمیر میں تو گزشتہ تین دہائیوں سے صحافت کو پہلے ہی تنی ہوئی رسی پر سفر جیسے حالات کا سامنا رہا ہے مگر پانچ اگست کے بعد صحافت کی رہی سہی آزادی بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔1990میں جب کشمیر میں مسلح تحریک تیزی سے اُبھر رہی تھی تو کشمیر کے ایک معتبر صحافی اور روزنامہ الصفاء کے ایڈیٹر شعبان وکیل کوقتل کرکے صحافت کا گلہ گھونٹنے کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا قلم کے کئی سپاہیوں کو چاٹتا ہوا دوبرس قبل ایک معروف اخبار نویس اور ایڈیٹر رائرنگ کشمیر شجاعت بخاری کے قتل تک جا پہنچا۔ اب یونین ٹیریٹری کے نام پر جبر کا جو ماحول قائم کیا گیا وہاں خبر سے زیادہ بے خبری کے کلچر کی ضرورت ہے۔ یوں اس نئے نظام میں آزاد ضمیر صحافی اور صحافت ”مس فٹ” ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ پر تو کشمیر کے دروازے عرصہ دراز سے بند ہیں اب بھارتی اور بین الاقوامی میڈیا کیساتھ کام کرنے والے کشمیری صحافیوں کا وجود اور سرگرمیاں بھی ناگوار ہوتی جا رہی ہیں۔ جس کا ثبوت کشمیر کے تین فعال صحافیوں مسرت زہرہ، گوہر گیلانی اور پیرزادہ عاشق کیخلاف بغاوت مقدمات ہیں۔ ان مقدمات نے کشمیری صحافت کے اوپر منڈلانے والی نادیدہ تلوار کو عیاں کر دیا ہے۔ چھبیس سالہ مسرت زہرہ سری نگر کے ایک محنت کش کی بیٹی ہیں اور کشمیر کے آشوب زدہ حالات نے مسرت کو فوٹو جرنلزم کی طرف راغب کیا۔ دو سال سے مسرت زہرہ خاک وخون میں لتھڑے ہوئے لاشوں، بین کرتی عورتوں اور پرنم آنکھوں کے حامل بچوں کی تصویریں بنا کر عالمی ذرائع ابلاغ کو بھیجتی ہیں۔ آج کے کشمیر کی اول وآخر کہانی چونکہ یہی حالات اور مناظر ہیں اس لئے ایک پروفیشنل فوٹوگرافر کی طرح مسرت کے پاس یہی کچھ فلم بند کرنے اور رپورٹ کرنے کو ہوتا ہے۔ کئی ایسی وڈیوز میں مسرت گولیوں کے دوران کیمرہ اُٹھائے دوڑتی نظر آتی ہیں۔ کشمیر جیسے روایتی معاشرے میں ایک خاتون کا اس انداز کی صحافت جان جوکھم کا کام ہے۔ مسرت زہرہ کی تصویریں الجزیرہ اور نیویارک ٹائمز میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ عاشق پیرزادہ بھارتی اخبار دی ہندو کیساتھ کام کرتے ہیں۔ اس سے پہلے شجاعت بخاری مرحوم بھی دی ہندو سے وابستہ تھے۔ دی ہندو جنوبی بھارت کا اخبار ہے اور یہ مزاج اور پالیسی کے اعتبار سے معتدل ہے۔ اس اخبار میں سہاسنی حیدر جیسی خواتین کی کشمیر کے حوالے سے حقائق پر مبنی رپورٹس چھپتی ہیں۔ عاشق پیرزادہ اپنے پیش رو شجاعت بخاری کی طرح اپنی رپورٹس میں کشمیر کے حالات کی عکاسی کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں یہ بات بھارتی حکام کو گوارا نہیں۔ اس فہرست میں تیسرا نام گوہرگیلانی کا ہے جو ایک متحرک صحافی ہیں اور اپنی رپورٹس میں کشمیر میں چاروں طرف بکھرے واقعات کو دیانتداری سے رپورٹ کرتے ہیں۔ ان تینوں صحافیوں کیخلاف مقدمات قائم کرتے ہوئے انہیں تھانوں میں پیشیوں پر مجبور کیا جانے لگا ہے۔ اس سلسلے کا آغاز مسرت زہرا کیخلاف بغاوت کا مقدمہ قائم کرنے سے ہوا۔ مقدمہ درج ہوتے ہی انہیں تھانوں میں پیشی کیلئے مجبور کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ دوسری جانب مسرت زہرا نے کہا ہے کہ انہوں نے ذہنی تناؤ کا شکار ایک ایسی خاتون کا انٹرویو کیا ہے جس کے خاوند کو دس سال قبل جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ اس انٹرویو اور تصاویر کی وجہ سے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پیرزادہ عاشق کو بھی ایک دوردراز تھانے میں پوچھ گچھ کیلئے بلایا گیا۔ پیرزادہ عاشق کو ایک ایسے خاندان کی کہانی لکھنے کی بنا پر طلب کیا گیا تھا کہ جن کا بیٹا فوج کے ہاتھوں شہید ہو گیا تھا۔ کچھ ایسا ہی ”جرم” گوہر گیلانی سے بھی سرزد ہوا جس کی بنا پر ان کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا۔ ان صحافیوں کیخلاف فوج نے جو فرد جرم تیار کی اس کے مطابق ان کی صحافتی سرگرمیاں دہشتگردوں کو تعظیم وتکریم دیکر ہیرو بناکر پیش کرتی ہیں۔ عوام میں خوف پھیلاتی ہیں، قومی مفاد کیخلاف ہوتی ہیں، دہشتگردوں کو تعظیم دینے کے نکتے کا ماخذ اکثر حریت پسندوں کے جنازے ہوتے ہیں۔ اگر کسی حریت پسند کے جنازے میں ہزاروں افراد اُمڈ پڑتے ہیں تو اخبار نویس اسے کیا لکھے؟۔ اس طرح فردجرم کے باقی نکات بھی مضحکہ خیز ہیں۔ تیس سال سے صحافت کشمیر میں شدید دباؤ کا سامنے کرتی رہی ہے۔ اب یہ دباؤ ایک نئی اور فسطائی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ تین صحافیوں کیخلاف بھارتی ریاست کے معاندانہ اقدامات اس فسطائیت کی نئی اور بھیانک شکل ہے۔ ان اخبارنویسوں کے کیمرے اور قلم سے خوف حقیقت میں بھارت کے اعمال وافعال کا فطری نتیجہ ہے۔ بھارتی صحافیوں کی تنظیم ایڈیٹر کلڈ آف انڈیا نے بھی صحافیوں کیخلاف مقدمات کی مذمت کرتے ہوئے اسے طاقت کا ناجائز استعمال قرار دیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی بھارتی حکومت کو صحافت کیخلاف ان اقدامات سے باز رہنے کو کہا ہے۔مسرت زہرا کی تحریر وتصویر ایک آئینہ ہے اور بھارت کو آئینہ توڑنے کی بجائے اپنے چیچک زدہ جمہوری چہرے کی پلاسٹک سرجری کرنا چاہئے۔ صحافت کا گلہ گھونٹے کی بجائے اپنے کردار اور روئیے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ قلم کو زنجیر پہنانا کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہا۔

مزید پڑھیں:  بارش سے پہلے چھت کا انتظام کیوں نہیں؟