1 118

محنت کشوں کا عالمی دن اور لاک ڈاؤن

\سب کچھ بدل چکا ہے، دنیا میں جس تیزی سے تبدیلی آرہی ہے اس کے بارے میںکبھی کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا، یہاں تک کہ اب وہ نعرہ بھی کہیں گم ہو چکا ہے جس نے ایک وقت میں سوچوں کے محور کو نئی جہتوں سے آشنا کرتے ہوئے دنیا بھر کے محنت کشوں کو ظلم وجبر کے اندھیروں سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا تھا، یہ نعرہ تھا ”دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جاؤ” یہ یکم مئی کو دنیا محنت کشوں کے عالمی دن کے طور پر مناتی ہے اور دنیا بھر کے مزدوروںکو ایک مٹھی کی طرح یک جا ہونے کا جو درس دیتی ہے اس کے پیچھے صنعتی ممالک میں محنت کشوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ایک پوری داستان ہے، محنت کشوں کی خوں رنگ قربانیاں ہیں، لاتعداد جانوں کے نذرانے ہیں، ایک طویل جدوجہد ہے تب جاکر کہیں یہ قربانیاں رنگ لائیں اور اس استحصالی نظام کا خاتمہ ہوا جس نے محنت کشوں کو حقیقی غلام بنا رکھا تھا، ان سے جبریہ طور پر اضافی مشقت لی جاتی اور نہایت قلیل معاوضے ان کے ہاتھوں پر رکھے جاتے جن سے وہ اپنے اور اہل خاندان کیلئے نان شبینہ کا بندوبست کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے تھے یہ تو 19ویں صدی کا دور تھا جب صنعتی ممالک خصوصاً امریکہ جیسی ریاست میں مزدوروں پر کارخانوں کے مالکوںکی جانب سے اوقات کار کے حوالے سے جو جبر مسلط کیا جارہا تھا اس سے مزدوروں کی زندگی عذاب سے بھی بدتر تھی، 1837ء میں امریکی صدر نے سرکاری ملازمتوں کیلئے 10گھنٹے اوقات کار مقرر کئے تو صنعتی مزدوروں پر بھی انہی اوقات کار کا اطلاق کیا جانے لگا جبکہ محنت کشوں نے 8گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ کیا، 1866ء میں بالٹی مور میں امریکی مزدور تنظیموں کا نمائندہ اجلاس ہوا اور ایک متحدہ تنظیم کا قیام عمل میں آیا جس کا نام نیشنل لیبر یونین رکھا گیا، پھر اسی سال پہلی بین الاقوامی کانفرنس جنیوا میں بھی 8گھنٹے اوقات کار کا مطالبہ پیش کیا گیا، 17اکتوبر1884ء کو شگاگو میں امریکن فیڈریشن آف لیبر یونین نے 8گھنٹے کے اوقات کار کو قانونی قرار دینے کی تجویز پیش کردی، آخر یکم مئی1886ء کو امریکہ کے صنعتی شہر شگاگو کے جیالے محنت کشوں نے اپنے لیڈروں کی قیادت میں ظلم وجبر کے ضابطوں کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور صنعتی غلامی کے بت کو پاش پاش کرنے کیلئے کفن بردوش میدان عمل میں کود پڑے، شگاگو میں صنعتی زندگی معطل ہوگئی، مزدور لاکھوں کی تعداد میں سڑک پر نکل آئے اور اوقات کار میں کمی، اجرتوں میں اضافہ، ٹریڈ یونین پر پابندی کے خاتمے اور کالے قوانین کی منسوخی کیلئے پرامن تحریک شروع کردی۔ 3مئی کو مزدور اتحاد کو طاقت کے بل پر ختم کرنے کیلئے پولیس نے میکارس ولیمروس نامی صنعتی ادارے کے مزدوروں پر بے رحمی سے حملہ کر دیا جس سے پانچ مزدور ہلاک اور دوسو کے قریب زخمی ہوگئے، کئی اس ہڑتال سے متاثر ہوئے۔ 3مئی کو مزدوروں کے پرامن جلسہ پر سرمایہ داروں کی ایجنٹ پولیس نے مزدوروں پر حملہ کردیا۔ پولیس اور مزدوروں کے درمیان دست بدست جنگ میں سینکڑوں کی تعداد میں محنت کش جان سے گئے جبکہ سات پولیس اہلکار بھی ہلاک ہوئے، مزدوروں نے طاقت اور غنڈہ گردی کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کے بجائے اپنے جھنڈوں کو اپنے ہلاک ہونے والے ساتھیوں کے خون سے رنگ لیا اور سرخ پرچم ظالموں کیخلاف جدوجہد کا نشان بن گیا۔ آج یکم مئی ہے، عالمی سطح پر یوم مزدور کے طور پر یہ دن اسلئے منایا جاتا ہے کہ دنیا بھر کے محنت کشوں کو ان کا وہ نعرہ یاد دلایا جائے جس نے ایک عظیم تحریک کی شکل اختیار کر کے بالآخر مزدوروں کو ان کے حقوق کی بازیافت میں اہم کردار ادا کیا اور آجر اور اجیر کے درمیان تعلقات کے اصول وضع کرنے میں ایک توازن قائم کرنے میں مدد دی، تاہم وہ جو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات، تو ان کے اس دعوے کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا، اس لئے کہ ترقی پذیر دنیا میں کہیں کہیں آج بھی صورتحال خاصی دگرگوں ہے۔ محنت کشوں کو ان کی جائز ضروریات کے مطابق معاوضے نہیں دیئے جاتے اور اگر ان کے مالکان انہیں ملازمتوں سے برطرف کر دیں تو نہ تو یہ برطرفی کسی قاعدے قانون کے تحت ہوتی ہے نہ محنت کشوں کو ان کے بقایاجات ادا کرنے پر توجہ دی جاتی ہے جبکہ ایسی صورت میں مزدوروں کے گھروں میں فاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے۔ ہمارے ہاں پاکستان میں تو حالات اور بھی گمبھیر صورت اختیار کر چکے ہیں، یہاں دیہاڑی دار بندہ مزدور کے اوقات اس قدر تلخ ہیں کہ اس وقت جبکہ کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن نے بڑے بڑوں کے حوصلے پست کر رکھے ہیں وہاں دیہاڑی دار اور سفید پوش محنت کشوں کی جو حالت ہے اس سے خوف آنے لگا ہے۔ بڑے بڑے سیٹھوں کے ہاتھوں کی سیٹی گم ہوچکی ہے اور وہ اس صورتحال میں مناسب تبدیلی کیلئے کوشاں ہیں جبکہ حکومت کی پالیسی پل میں ماشہ پل میں تولہ کی کیفیت کی غماز دکھائی دے رہی ہے، اگرچہ بعض کاروبار اور خوردہ فروشی کے حوالے سے پہلے صبح 8بجے سے سہ پہر چار بجے تک کا وقت مقرر کیا گیا جس پر عوامی مطالبات کے نتیجے میں نظرثانی کرتے ہوئے اب رات گئے تک کی مہلت دیدی گئی ہے جن میں ہتھ ریڑھیوں پر سودا سلف فروخت کرنے والوں کو بھی ریلیف دیدیا گیا مگر بازاروں میں صورتحال اس کے برعکس نظر آتی ہے اور پولیس کے ڈنڈا بردار غریب ہتھ ریڑھیوں والوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں اور جن خاندانوں کو سرکاری پیکج میں شامل کیا گیا ہے ان میں سے بھی اکثر شکایات کرتے رہتے ہیں کہ ان تک امداد ابھی تک نہیں پہنچی، حقیقت کیا ہے اس حوالے سے باقاعدہ تحقیقات کے بعد ہی پتہ چل سکتا ہے، تاہم ہتھ ریڑھیوں والوں کیساتھ جو سلوک ہو رہا ہے اس کا نوٹس لیا جانا ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں تو محنت کشوں کا پہلے ہی پرسان حال کوئی نہیں، اس پر اگر کوئی رزق حلال کمانے گھر سے نکلتا ہے تو اس پر ڈنڈے برسانے کا کیا جواز بنتا ہے؟ بقول حبیب جالب
ہم غریبوں کا امیروں پہ ابھی تکیہ ہے
ہم غریبوں کی ابھی اور پٹائی ہوگی

مزید پڑھیں:  قصے اور کہانی کے پس منظر میں