editorial 5 3

آئی بلا ٹال تو

کرونا وائرس کیخلاف لاپرواہی، غفلت، بے حسی اور بے خبری عوام اور حکومت دونوں طرف سے دیکھنے میں آرہی ہے۔ تین دن پہلے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے دو ڈاکٹروں کا استعفیٰ ارباب اختیار کی آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھا اور انہیں فوراً سے پیشتر وہ سہولیات مہیا کرنا تھیں جن کی عدم موجودگی کی وجہ سے ڈاکٹرز مستعفی ہوئے۔ ہنگامہ تو بہت کھڑا ہوا بیان بازی بھی ہوتی رہی مگر کوئی ٹھوس قدم نہیں اُٹھایا گیا، ڈاکٹرز کی شکایات رفع کرنا بہت ضروری تھا کیونکہ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا، اب تازہ ترین خبر یہ ہے کہ بدانتظامی اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے مزید چار ڈاکٹرز نے اپنا استعفیٰ پیش کر دیا ہے اور خوفناک بات یہ ہے کہ ان چاروں ڈاکٹرز کا تعلق آئی۔سی۔یو سے ہے جہاں موت وحیات کی کشمکش میں مبتلا انتہائی سیریس مریض داخل کئے جاتے ہیں۔ اگر ارباب اختیار کی طرف سے ان استعفوں کو بھی درخوراعتنا نہ سمجھا گیا تو پھر یہ سلسلہ مزید آگے بڑھتا چلا جائے گا جو یقینا موجودہ صورتحال میں بڑی مایوس کن بات ہوگی۔ کرونا وائرس کی وبا پھوٹ پڑنے کے بعد ہمارے ڈاکٹروں نے بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا وہ بڑی بہادری اور جانفشانی کیساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی میں مصروف رہے، ان کی خدمات کو سراہا بھی گیا بہت سے اس خطرناک وائرس کا شکار بھی ہوئے اور کچھ کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑے، لیکن جب صورتحال یہ ہے کہ آپ کے پاس مناسب کٹس نہ ہوں دوسری سہولیات کا فقدان ہو تو پھر یقینا اپنی زندگی کو داؤ پر لگانے والی بات ہوتی ہے۔ خطرے کی گھنٹی تو بج چکی ہے اگر خدا نخواستہ استعفوں کا سلسلہ مزید چل نکلا تو پھر ہسپتال میں کوئی سینئر ڈاکٹر نہیں رہے گا اور یہ پہلے سے خراب صورتحال پر مزید خرابی والی بات ہوگی۔ نہ صرف پشاور کی آبادی کا بیشتر حصہ بلکہ صوبے کے دوسرے حصوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک کثیر تعداد لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی خدمات سے استفادہ کرتی ہے۔ غریب لوگ نجی ہسپتالوں سے علاج کروانے کا سوچ بھی نہیں سکتے یہ سرکاری ہسپتال سفید پوش لوگوں کیلئے ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ لیڈی ریڈنگ یقینا ایک عظیم خاتون تھی اس نے ہسپتال تو بنوا دیا اب اس سے کام چلانا اس کا نظام بطریق احسن چلانا ہماری ذمہ داری ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ہم اس میں بری طرح ناکام نظر آرہے ہیں۔ یہ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم ڈاکٹرز کے جائز مطالبات بھی پورے نہیں کرسکتے؟ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمیں حالات کی سنگینی کا احساس ہی نہیں ہے، ہماری غفلتوں اور لاپرواہیوں کے سلسلے تو ہر شعبے میں موجود ہیں اور یہ سلسلہ چلتا ہی رہتا ہے مگر یہاں زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ وبا کے ان دنوں میں اس بڑے ہسپتال میں مریضوں کی شرح اموات سب سے زیادہ رہی ہیں اس پر ایک انکوائری کمیٹی بھی بنائی گئی تھی، کمیٹی نے ہسپتال کی انتظامیہ سے چند سوال بھی پوچھے تھے لیکن پھر اس کے بعد کچھ بھی سننے میں نہیں آیا کہ اصل صورتحال کیا تھی؟ اب استعفوں کا نیا سلسلہ چل نکلا ہے جو یقینا ہماری کمزوری، غفلت، بے حسی اور لاپرواہی کا شاخسانہ ہے، اس کا جلد ازجلد تدارک ہونا چاہئے۔
اب پبلک ٹرانسپورٹ کو ان ہدایات کیساتھ کھولا جا رہا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں ماسک، دستانے اور سینی ٹائزر کا استعمال لازمی ہوگا، گاڑیوں کے اندر ایئرکنڈیشن کے استعمال پر بھی مکمل پابندی ہوگی، اس کے علاوہ گاڑیوں میں روزانہ جراثیم کش سپرے ہوگا، اڈہ انتظامیہ صابن اور سینی ٹائزر کی دستیابی یقینی بنائے گی، تھرمل گن کے ذریعے بخار چیک کرکے صرف مخصوص تعداد میں مسافروں کو سفر کی اجازت ہوگی، گاڑی میں سوار ہونے اور اُترنے کیلئے الگ الگ دروازے استعمال کئے جائیں گے، شیشے اور دروازے کھلے رکھے جائیں گے، یہ وہ رہنما اصول ہیں جو حکومت نے جاری کر دئیے ہیں اور اگر ان اصولوں کی خلاف ورزی کی گئی تو پھر گاڑی ضبط کر لی جائے گی۔ اب اس پر ہمیں تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے قارئین ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ ہمارے لوگ ان اصولوں کی پابندی کس حد تک کریں گے؟ یوں کہئے حکومت نے ساری ذمہ داری عوام پر ڈال دی ہے آپ دعا کریں کہ خدا ان کو کامیاب کرے۔ جہاں تک عوامی احتیاط کا تعلق ہے تو ہمارا آنکھوں دیکھا حال بھی سن لیں، ہمارے سر پر اگرچہ گنتی کے چند بال ہی رہ گئے ہیں لیکن سر کے پچھلے حصے پر اُگے ہوئے بال قید تنہائی کی وجہ سے بدتمیزی کی حد تک بڑھ چکے تھے اسی لئے کل ہم احتیاط کے سارے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گھر سے نکلے اور حجام کی دکان کی طرف رواں دواں ہوگئے، وہاں پہنچ کر دیکھا تو دکان گاہکوں سے بھری ہوئی تھی، ہم بھی ایک کونے میں موجود خالی نشست پر اللہ کا نام لیکر براجمان ہوگئے لیکن دل میں جل جلالہ آئی بلا ٹال تو، کا ورد جاری رکھا تھوڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ گاہک صرف دو تھے باقی حضرات آس پاس کے دکاندار تھے جو اپنی دکان کے شٹر بند کرکے حجام کی دکان میں پناہ لئے ہوئے تھے، تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے گاہک تشریف لاتے تو وہ شٹر کھول کر ان کی مطلوبہ اشیاء انہیں فراہم کرتے اور پھر حجام کی دکان میں رونق افروز ہو جاتے۔ جب ذرا اوسان بحال ہوئے اور ان کی گفتگو پر توجہ دی تو وہ کرونا وائرس پر لطیفہ گوئی میں مصروف تھے۔ ان لوگوں کا مذاق اُڑا رہے تھے جو ماسک اور دستانے پہن کر گھروں سے نکلتے ہیں، ہم نے ان کے لطیفے اور استہزائی جملے سن کر چپکے سے اپنا ماسک اُتار کر جیب میں رکھ دیا مگر جل جلالہ آئی بلا ٹال تو کا ورد جاری رکھا۔

مزید پڑھیں:  کور کمانڈرز کانفرنس کے اہم فیصلے