editorial 3 4

توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا

مسئلہ کمبل کا ہے جو جان نہ چھوڑے تو پھر مجبوری ہی آن پڑتی ہے کہ بندہ اسے لپیٹ کر اس کیساتھ ہی زندگی گزاردے، یہ جو ہر سال رمضان اور عیدالفطر کے موقع پر ملک میں رویت ہلال کا قضیہ بام عروج پر پہنچ جاتا ہے، تو حاشا وکلا میری کوشش ہوتی ہے کہ اس قضئے سے حتی الامکان جان چھڑائی جائے، مگر صورتحال وہی اک ذراچھیڑیئے پھر دیکھئے کیا ہوتا ہے والی بن جاتی ہے، ہم بقول شاعر لاکھ بھی کہیں کہ
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تجھے اٹکھیلیاں سوجھی ہیں ہم بے زار بیٹھے ہیں
لیکن اسے کیا کہا جائے کہ یہ چھیڑخانی بالکل اس خاتون کے ایک جنگل میں اکیلے سفر کرنے کے دوران ایک مرد کو سر پر بھاری بوجھ دونوں ہاتھوں سے تھام کر جاتے ہوئے دیکھتی ہے تو اسے کچھ حوصلہ ہوتا ہے، مگر تھوڑی دیر ساتھ چلنے کے بعد خاتون پسینے سے شرابور مرد کے سر پر بوجھ کو مشکل سے سنھبالنے کے باوجود اسے کہتی ہے، مجھے ڈر ہے کہ آپ مجھے چھیڑیں گے، اس روایتی کہانی کو لاتعداد بار اپنے قارئین کی نذر کرتے ہوئے پوری تفصیل بتا چکا ہوں اسلئے اب اس سے حاصل ہونے والے نتیجے پر ہی آتے ہیں، گزشتہ روز مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے محکمہ موسمیات کو شوال کے چاند کی پیشگوئی کرنے سے روک دیا تھا اور ہدایت دی تھی کہ محکمہ موسمیات چاند سے متعلق پیشگوئی نہ کرے، جبکہ چاند دیکھنے کیلئے رویت ہلال کمیٹی کی معاونت کرنے کی ہدایت کی گئی تھی مگر آج کسی رویت ہلال ریسرچ کونسل کی جانب سے ایک خبر سامنے آئی ہے جس میں وہی صورتحال ہے یعنی بقول مرزا غالب
وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سرگراں کیوں ہو؟
اب یہ رویت ہلال ریسرچ کونسل کہاں سے ٹپک پڑی ہے، اس حوالے سے تو مرکزی وزیر سائنس وٹیکنالوجی چوہدری فواد حسین نے کبھی اشارةً یا کنایتاً بھی نہیں بتایا، بس اچانک جنگل میں اکیلے سفر کرنے والی خاتون کی طرح کہیں سے نکل آئی ہے اور شور مچا دیا ہے کہ تم مجھے چھیڑوگے! اس ریسرچ کونسل کے سیکرٹری جنرل خالد اعجاز مفتی نے بتایا ہے کہ چاند اس وقت تک دکھائی نہیں دیتا جب تک کہ اس کی عمر غروب آفتاب کے وقت کم ازکم19گھنٹے اور غروب شمس وغروب قمر کا درمیانی فرق کم ازکم 40منٹ سے زائد نہ ہو جائے۔انہوں نے بتایا کہ شوال کا چاند 22مئی کو پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق رات دس بج کر 39منٹ پر پیدا ہوگا۔ ہفتہ 23مئی کی شام غروب آفتاب کے وقت چاند کی عمر اگرچہ پاکستان کے تمام علاقوں میں 20گھنٹوں سے زائدہوگی۔ نیز غروب شمس وغروب قمر کا درمیانی فرق پشاور، چارسدہ، راولپنڈی، اسلام آباد، مظفر آباد، گلگت اور لاہور میں39منٹ جبکہ کراچی، کوئٹہ اور جیوانی میں 40منٹ ہوگا لیکن (اس لیکن پر غور کیا جائے) دیگر عوامل ناکافی ہونے کے باعث ہلال پشاور، لاہور اور کوئٹہ میں بصری آلات کی مدد کے بغیر دکھائی نہیں دے سکتا جبکہ کراچی اور جیوانی میں ہلال کی رویت کیلئے بصری آلات کی ضرورت پیش آسکتی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں ہفتہ کی شام رویت ہلال کا امکان انتہائی کم ہے، لہٰذا رمضان المبارک کے 30دن مکمل کرنے کے بعد عید پیر 25مئی کو منائی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پشاور میں چونکہ 24اپریل کو رمضان المبارک کا آغاز کیا گیا تھا لہٰذا وہ لوگ 30روزے مکمل کرنے کے بعد اتوار 24مئی کو عید منائیں گے حالانکہ وہاں 23مئی کی شام غروب آفتاب کے وقت ہلال دوربین کی مدد سے بھی دکھائی دینے کا کوئی امکان نہیں۔ فی الوقت اس امکان کو ایک جانب رکھتے ہوئے کہ مفتی پوپلزئی رویت ہلال کمیٹی کا اس سارے معاملے میں کیا رویہ ہوگا کہ تقریباً اس حوالے سے سبھی جانتے ہیں یعنی ظاہر ہے وہ خالد اعجاز مفتی کے جھانسے میں آکر 31روزے رکھنے کی راہ پر گامزن نہیں ہوں گے، دیکھنا یہ ہے کہ جتنی تفصیل کیساتھ 23مئی کو غروب آفتاب وغروب قمر کے مابین وقت کا 40منٹ سے زائد ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے ملک کے اکثر شہروں کے بارے میں خبر میں بتایا گیا ہے اور بقول خالد اعجاز مفتی صرف یہ مقررہ وقت کراچی اور جیوانی میں 40منٹ تو ہوگا تاہم اس کیلئے بصری آلات یعنی طاقتور دوربین کی ضرورت پڑے گی گویا جس طرح ہر ماہ کراچی میں بلند ترین عمارت (عموماًحبیب بنک پلازہ) پر طاقتور دوربین لگا کر رویت ہلال کمیٹی کے عینک لگائے ہوئے اکثر ممبران صاحبان کو چاند دکھانے کی ”ناکام” کوشش کی جاتی ہے، تو اب کی بار جب انہی بصری آلات کی مدد سے چاند دیکھنے کے امکانات روشن ہو رہے ہیں ان بصری آلات کی مدد حامل کرنے میں کیا قباحت ہو سکتی ہے، اگر تو متعلقہ ادارہ ایسا نہیں کرے گا تو اس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوگا کہ کچھ ادارے جان بوجھ کر یہ جانتے ہوئے بھی کہ 23مئی کو طلوع ہونیوالا ہلال دکھائی دے سکتا ہے عید کے ایک ہی دن پورے ملک میں منانے کی راہ کھوٹی کرنا چاہتا ہے۔ باقی بات مفتی پوپلزئی کی کمیٹی کی ہے تو اس کمیٹی کے فیصلے کے مطابق رمضان المبارک کا آغاز 24مئی سے کیا گیا تھا اسلئے اگر جیسا کہ اعجاز مفتی فرماتے ہیں کہ عید 25مئی کو ہوگی مگر یہ ضروری تو نہیں کہ مفتی پوپلزئی کی کمیٹی بھی 30روزے مکمل کرنے کے بعد 24مئی کو عید کا اعلان کرے کیونکہ ماضی میں اس کے برعکس بھی ہوتا رہا ہے، بہرحال دیکھتے ہیں کہ مفتی منیب الرحمن، مفتی پوپلزائی اور اب تیسرے مفتی خالد اعجاز کے مابین یہ مسئلہ کیسے حل ہوتا ہے کہ تینون مفتی ہیں (تیسرے کے مفتی ہونے میں البتہ صرف نام کا ہی تعلق دکھائی دے رہا ہے) مگر ان تینوں کے پھینکے ہوئے کمبل نے قوم کو مسئلے سے دوچار رکھا ہے۔ بقول نسیم اے لیہ
توہین عدالت کا ارادہ تو نہیں تھا
بے ساختہ سرکار ہنسی آگئی مجھ کو

مزید پڑھیں:  پاکستان میں'' درآمد وبرآمد'' کا عجب کھیل