editorial 4 5

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو

ہائے مرگیا، کوئی بچاؤ، ہائے اُف۔ وائی وائی وائی مرگیا۔ وہ قمیص سے اپنے چہرے اور سر کو ڈھانپے اندھادھند دوڑے جارہا تھا۔ کبھی اس کا پاؤں پھسلتا اور وہ اوندھے منہ گرجاتا۔ گر کر سنبھلتا، اُٹھتا اور ایک بار پھر سراسیمگی کی حالت میں چیختا چلاتا بھاگنے لگتا۔ ارے بھائی کیا ہوا ہے، میں نے بھولے باچھا کی دلخراش چیخیں سنیں تو روک کر پوچھنا چاہا۔ مگر وہ تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ بھلا وہ ہماری کسی بات کا کیا جواب دے پاتا۔ کیا ہوا کیوں چلا رہے ہو؟ کہاں بھاگے جارہے ہو مگر وہ بے چارا شامت کا مارا کچھ بھی تو نہ بتا سکتا تھا۔ اس نے اپنا پیچھا کرنے والی شہد کی مکھیوں کی ایک بپھری ہوئی فوج ظفر موج کی طرف اشارہ کیا جو آتش انتقام میں جلتی بھنتی ”ٹھہر تیری ایسی کی تیسی” قسم کی دھمکی آمیز جملے بولتی اس بے چارے شامت کے مارے کو دن کے وقت تارے دکھانے کا قرض کھائے اس کا پیچھا کر رہی تھی۔ بھئی کونسی قیامت ٹوٹ پڑی ہے جو اس قدر قہرآلود بن کر غول درغول پیچھا کر رہی ہو اس بے چارے کا۔ دیکھو تو وہ کتنا گھبرایا ہوا ہے، کیا گناہ سرزد ہوگیا اس سے۔ کیا بگاڑا ہے اس نے تم سب کا۔ اگر میں شہد کی مکھی نہ سہی مکھیوں کی 20ہزار اقسام میںسے کسی بھی قسم کی مکھی یا مکھا ہوتا تو اُڑ کر ان کے بپھرے ہوئے غول میں گھس جاتا اور ان سب کی رانی ماں سے پوچھتا کہ کیوں قیامت ڈھا رہی ہو اس بے چارے بھاگتے گرتے چیختے چلاتے شامت مارے پر۔ کیا اس نے آپ لوگوں کے شہد کے چھتے کو چھیڑا ہے؟ جس کے جواب میں وہ کہتی ”نہیں! کسی کی کیا مجال جو ہمارے شہد کے چھتے کو چھیڑ پائے۔ ہم کتنی محنت اور جاں فشانی سے پھول پھول گھوم کر اور ان کا رس چوس چوس کر چھتا تیار کرتی ہیں۔ اس میں شہد اور موم جمع کرتی ہیں اور جو لوگ ہمارے چھتے سے شہد حاصل کرنے کے لگے بندھے اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں ہم اپنا شہد ان کی نذر کر دیتی ہیں۔ تو پھر کیا کر دیا اس شامت مارے نے جو آپ سب ملکر اس بے چارے پر حملہ آور ہوگئیں۔ کاش میں مکھیوں کی رانی سے پوچھ سکتا اور وہ مجھے جواب میں کہتی کہ اس نے بیڑہ غرق کر دیا ہے ہمارے فٹبال میچ کا۔ ارے یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ آپ اور فٹبال۔ میرا مطلب ہے آپ فٹبال میچ کب سے کھیلنے لگیں۔ میں مکھیوں کی رانی سے یہ بات حیرت بھرے انداز میں پوچھتا لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ میں شہد کی مکھیوں کی رانی سے ایسا بے ہودہ سوال اس وقت کرنے یا پوچھنے کا مجاز ہوتا جب مجھے اس بات کا علم نہ ہوتا کہ وہ فٹبال میچ بھی کھیلا کرتی ہیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ شہد کی مکھیاں فٹبال بھی کھیلا کرتی ہیں۔ تو صاحبو! میں آپ کو بتاتا چلوں کہ آج 20مئی کو پاکستان سمیت ساری دنیا میں شہد کی مکھیوں کا عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اس بات کی دھنک جیسے ہی ہمارے کان میں پڑی تو ہم نے ٹھان لی شہد کی مکھیوں کے موضوع پر کالم لکھنے کی۔ موضوعی کالم لکھنے کیلئے مطالعہ کرنا پڑتا ہے جس کا کسی کو فائدہ پہنچے یا نہ پہنچے کالم لکھنے والے کو ضرور پہنچتا ہے۔ وہ ایک دم سے شہد کی مکھی بن جاتا ہے اور معلومات کے پنڈورے کھول کھول کر ان سے پھولوں کے رس جیسا مواد اکٹھا کرنے لگتا ہے اور اپنے گنبد ذہن میں لگے چھتے میں اپنے کالم کے قارئین کیلئے شہد تیار کرتا ہے، جسے وہ اپنا حاصل مطالعہ کہتا ہے۔ شہد کی مکھیوں کے متعلق ہم اتنا تو جانتے ہی تھے کہ حدیث نبویۖ کے مطابق بہت سارے امراض میں شہد کی افادیت مسلمہ ہے۔ شہد کی مکھیاں بڑی محنت جاں فشانی اور اپنی رانی کی نگرانی میں بڑے منظم طریقے سے شہد تیار کرتی ہیں۔ ان میں مزدور یا محنت کش مکھیاں بھی ہوتی ہیں، ان کے چھتے کی حفاظت کرنے والی عسکری مکھیاں بھی ہوتی ہیں اور ہڈحرام مکھیاں بھی موجود ہوتی ہیں، انسان کی طرح یہ بھی اکیلا رہنا پسند نہیں کرتیں بلکہ ایک سماج یا معاشرہ بنا کر زندگی کے شب وروز گزارتی ہیں، یہ ہمہ وقت کام کام اور کام کے قائداعظمی اصول پر قائم رہتی ہیں، اپنے کام سے کام رکھتی ہیں اور جو کوئی ان کے کام میں آڑے آتا ہے اس کا حشر شامت کے مارے بھولے باچھا جیسا کردیتی ہیں، بلا کی ذہین واقع ہوئی ہیں شہد کی مکھیاں، ایک آن لائن حوالہ کے مطابق انکشاف ہوا ہے کہ اگر کوئی اچھا کوچ مل جائے تو شہد کی مکھیاں فٹبال بھی کھیل لیتی ہیں، کوچ کے حوالہ سے بات یاد آئی ہم ہر سال 20مئی کو شہد کی مکھیوں کا عالمی دن اسلئے بھی مناتے ہیں کہ اس دن اٹھارہویں صدی کے دوران شہد کی مکھیوں کے مطالعہ کیلئے اپنی زندگی وقف کرنے والے Anton Jansa کی سالگرہ ہوتی ہے اور اس طرح اس دن شہد کی مکھیوں کا عالمی دن منا کر ایک پنتھ دو کاج کے مصداق اس نابغہ روزگار شخصیت کو بھی خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ شہد کی مکھیاں صرف شہد اور موم کی پیداوار میں اضافہ کرکے عالمی منڈی میں کروڑوں کا زرمبادلہ کمانے کا باعث نہیں بنتیں، ان کے موم سے بننے والی شمع جب روشن ہوتی ہے تو پروانے جل کر اپنی جان نثار کردیتے ہیں، جسے سوچ کر شاعر باکمال کہہ اُٹھتا ہے کہ
مگس کو باغ میں نہ جانے دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

مزید پڑھیں:  ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے