p613 5

کورونا،روک تھام کی توقع رکھی جائے یا نہیں؟

عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے بعد اب انتظامیہ کے پاس بازار بند رکھنے اور اوقات محدودکرنے کا بھی اختیار باقی نہیں رہا، اب شاید ہی کوئی شاپنگ مال یا کاروبار سیل کی جاسکے۔ بازار کھل گئے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ چلنے لگی ہے، اب سوائے تعلیمی اداروں کے کوئی اور شعبہ بندش کا شکار نہیں۔ جید علمائے کرام نے کورونا وباء کے معاملے میں صدر مملکت سے جو معاہدہ کیا تھا اب ان کی جانب سے بھی عملاً معاہدے کے بالحکمت خاتمے کا بیان سامنے آیا ہے، شاید اس کی وجہ حکومت کا وہ دوہرا معیار تھا جومذہبی آزادی اور پابندی بارے حال ہی میں اپنایا گیا، بہرحال اس سے قطع نظر فطری سی بات یہ ہے کہ جب سارا ملک معمولات زندگی کی طرف عملی طور پر لوٹ گیا تو مساجد میں جانے سے گریز کورونا کے پھیلائو کی روک تھام کیلئے کوئی کارگر نسخہ رہا ہی نہیں۔ حکومت عدالت، عوام اور علمائے کرام سبھی نے اپنے اپنے فیصلے کر لئے، افسوسناک امر یہ ہے کہ اس معاملے کے اصل فریق اور سپاہیوں یعنی ڈاکٹروں اور طبی عملے سے کسی نے رائے لینے کی زحمت ہی نہیں کی۔ ماہرین کا روزاول سے موقف رہا ہے کہ کورونا وائرس سے بچائو کا واحد طریقہ جسمانی دوری اور حددرجہ احتیاط ہے جو لوگ جانوں کا نذرانہ دے کر اور اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال کر کورونا کے مریضوں کا علاج کررہے ہیں جو اسی کہانی کے مرکزی کردار اور عملی ہیرواور ہیروئن ہیں ان کی سفارشات اور گزارشات کو یوں پس پشت ڈالنے کے بعد اخلاقی طور پر یہ جواز باقی نہیں رہتا کہ پھر ان سے توقعات رکھی جائیں، بہرحال خراج تحسین کا مستحق ہے طبی عملہ جو اپنے فرائض بے سروسامانی کی حالت میںنبھارہا ہے اور خودکو خطرے میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے احکامات کے بعد اب ملک بھر کی چھوٹی بڑی مارکیٹیں کھل چکی ہیں، پہلے ہی بازاروں میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا اب نجانے کیا عالم ہوگا۔یہ بات تو طے ہے کہ احتیاطی تدابیر نہ پہلے اختیار کی گئیں نہ اب اور نہ ہی عوام سے اس کی توقع ہے، حکومت وانتظامیہ بھی بے بس ہوچکی ہیں اب پوری طرح کورونا کے پھیلائواور اس کے نکتہ عروج پر پہنچنے کا وقت آیا ہی چاہتا ہے، وفاقی وزیر سائنس وٹیکنالوجی فواد چوہدری کا یہ ٹویٹ خاص طور پر توجہ طلب ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ وزارت سائنس کی ایکسپرٹ کمیٹی نے تین بنیادی نکات پر رائے دی ہے کہ پاکستان میں کورونا کا زیادہ دبائو جون کے وسط تک سامنے آئے گا، اجتماعی مدافعت (Herd immunity) کا تصور انتہائی خطرناک ہوسکتا ہے، اس طرح کی کوئی حکمت عملی ہر گز نہیں اپنانی چاہئے، کورونا زکام نہیں۔ دوسری جانب عدالت عظمیٰ کے زیرنظر جو حقائق اور امور ہیں ان سے بھی چشم پوشی ممکن نہیں بہرحال شعبے کے ماہرین کی آراء سے بھی یکسر صرف نظر ممکن نہیں، اس ساری صورتحال میں اب ملک کی آبادی دو واضح حصوںمیں تقسیم نظر آتی ہے، ایک وہ جو حکومتی لاک ڈائون کی پرواہ نہیں کرتے رہے اور اس وقت وہ سڑکوں اور بازاروں میں بھیڑ کی صورت میں موجود ہیں اور دوم وہ محدود طبقہ جو گھر بند ہونے کا معاشی اور سماجی طور پر متحمل ہوسکتا ہے لیکن اب صورتحال یہ نظر آتی ہے کہ گھروں میں خود کو قید کرنے والے بھی زیادہ محفوظ نہیں اس لئے کہ وباء جب شدت اختیار کر جائے تو آبادی کی کثیر تعداد کی بے احتیاطی غالب آنا فطری امر ہوگا۔ ملک میں جاری صورتحال میں پہلے ہی حکومت اور ماہرین کی آراء میں تضاد کی کیفیت تھی اب اس میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ ماہرین کی سفارشات بھی حتمی بچائو کا طریقہ اور حمایت نہیں محض احتیاط کے تقاضے ہیں یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں ہر دورائے تقریباً یکساں بن جاتی ہے اب جبکہ فیصلہ ہوچکا اور فیصلے سے قبل اور بعد کی صورتحال زیادہ مختلف نہیں، لوگ پہلے بھی اسی طرح بازاروں اور سڑکوں پر حفاظتی تدابیر اپنائے بغیر نظر آئے تھے اب بھی اسی طرح کی صورتحال ہے، انتظامیہ پہلے ممکنہ سختی سے کام لے سکتی تھی اب ان کیلئے بھی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اس ساری صورتحال میں احتیاط کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھنا اب اجتماعی وانفرادی ذمہ داری ہے، اجتماعی ذمہ داری کی توقع زیادہ نہیں البتہ اگر انفرادی طور پر کوشش کی جائے تویہ خود کو اور دوسروں کو خطرے سے بچانے کی احسن سعی ہوگی، یہ دین اور اخلاقیات کا عین تقاضا اور انسانی ضرورت ہے۔حکومت کی ذمہ داری ہے کہ جن ایس او پیز پر اتفاق کیا گیا ہے اور قانون وعدالت نے جس حد تک کے اقدامات کی اجازت دی ہے اسے یقینی بنایا جائے۔ عوام کو رضاکارانہ طور پر حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی جس حد تک ممکن ہو ترغیب دی جائے اور ایک ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جائے کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح کوئی بھی شخص بغیر ماسک کے باہر نہ آئے اور ممکنہ فاصلہ رکھنے کی کوشش کی جائے۔

مزید پڑھیں:  فیض آباد دھرنا ، نیا پنڈورہ باکس