editorial 1 4

کچھ تلخ وشیریں باتیں

سوموار کو سپریم کورٹ میں کہا گیا ”ملک میں کورونا وبا نہیں اس پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کا کیا جواز ہے”۔ اس دن شام کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا کہ ملک میں کورونا کے مریضوں کی مجموعی تعداد 43ہزار 9سو سے تجاوز کر چکی ہے مزید 41اموات کیساتھ مرنے والوں کی تعداد 939ہوگئی۔ سپریم کورٹ نے ملک بھر میں کاروبار کھولنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ کاروبار بند کرنا آئین کیخلاف ہے۔ عدالت نے قواعد وضوابط کی خلاف ورزی پر سیل کی گئی دکانیں بھی کھولنے کا حکم دیا۔ این ڈی ایم اے کی طرف سے عدالت کو بتایا گیا کہ کورونا کے ایک مریض پر 25لاکھ روپے مجموعی خرچ ہوتے ہیں۔ عدالت کا کہنا تھا ایک مریض پر 25لاکھ روپے خرچہ مگر نظر نہیں آرہا، بتایا جائے اربوں روپے کہاں جارہے ہیں۔ اُدھر کورونا بحران کے دنوں میں اگلے روز وفاقی سیکرٹری صحت کی چوتھی بار تبدیلی عمل میں لائی گئی۔ نصف صدی سے دو سال کم ہوتے ہیں قلم مزدوری کرتے ہوئے اور یہ حیرانی ہمیشہ رہی کہ جو جس کا کام ہے وہ اپنے کام پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت کو نظرانداز کرکے دوسرے شعبہ کا عالمی ماہر ہے۔ ان عالمی ماہرین نے ہمارا جو حشر کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مثال کے طور پر سوموار کے روز این ڈی ایم اے کے نمائندے نے ایک موقع پر عدالت میں کہا کہ کورونا کے ایک مریض پر ابتدائی طور پر 6لاکھ 25ہزار روپے پی پی ایز کی فراہمی پر خرچ ہوتے ہیں بعدازاں یہ بھی بتایا گیا کہ 25لاکھ روپے فی مریض۔ 6لاکھ 25ہزار یا 25لاکھ، درست رقم کونسی ہے اور یہ کہ آخر اس حساب کتاب کا کوئی نگران بھی ہے؟ مجھے معاف کیجئے گا احتیاط کے بغیر لاک ڈاؤن کھول دینے اور سفری ذرائع میں ایس او پیز پر عمل نہ ہونے سے اگر کورونا کا پھیلاؤ بڑھا تو کیا ہوگا؟ محض یہ کہہ دینا کہ ”ملک میں کورونا وباء نہیں ہے” بہت سارے سوالات کو جنم دینے کا باعث بنے گا۔ اگر ملک میں کورونا نہیں ہے تو یہ 43ہزار مریض کس مرض کے ہیں؟ 939افراد کس یا کن امراض سے موت کے منہ میں گئے۔ پچھلے دو ماہ سے افراتفری کیوں تھی۔ خیبر پختونخوا حکومت نے سوموار کو یہ فیصلہ کیوں کیا کہ کورونا کیلئے بنائے گئے قرنطینہ سے بھاگنے والے مریض پر 50ہزار روپے جرمانہ ہوگا”۔ پولن الرجی سے اگر ہر سال اسلام آباد میں ایک ہزار افراد مرتے ہیں تو وزارت صحت بتائے اس نے پچھلے برسوں اس کیلئے کیا کیا۔ کہا گیا دل، جگر، گردے، کینسر اور دوسری بیماریوں سے بھی ہزاروں لوگ ہر سال راہی ملک عدم ہوتے ہیں، میں ان منطقوں پر حیران ہوں۔ زندگی سے جس قدر کھلواڑ ہمارے ملک میں ہوتا ہے شاید ہی کسی اور ملک میں ہوتا ہو، اچھا اگر ہوتا ہے تو مجھے اس سے غرض نہیں۔ کیا اس ملک میں جعلی ادویات بنانے کا غلیظ دھندہ وزارت صحت نے بند کروا دیا؟ کیا اس وقت ملک بھر کے میڈیکل سٹورز پر فروخت ہونے والی ہزاروں ادویات بین الاقوامی معیار کی ہیں؟ فلورملیں خالص آٹا فروخت کرتی ہیں؟ بڑے شہروں میں سرکاری طور پر فراہم کیا جانے والا پینے کا پانی معیاری ہے؟ اس غیرمعیاری پانی سے ہیپاٹائٹس پھیل رہا ہے۔ چاروں صوبوں کے 10شہر منتخب کیجئے اور کم ازکم پچھلے دس سالوںکے دوران ان شہروں میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد کے حساب پر غور کر لیجئے۔ چائے کی پتی تک میں تو چنے کا چھلکا ملاتے ہیں، بہت ادب سے معذرت بات دوسری طرف نکل گئی لیکن ہمارا عمومی رویہ یہی ہے۔ تباہ ہوگئے برباد ہوگئے کا شور مچانے والے ہمارے تاجر بھائیوں میں سے کتنے ہیں جو سالانہ ایک لاکھ روپے کا ٹیکس دیتے ہیں؟ چند دن اُدھر ایک رپورٹ سامنے آئی کہ لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد ایک دن میں کراچی میں 12ارب روپے اور لاہور میں 6ارب روپے کی خریداری ہوئی، ظاہر ہے یہ ساری خریداری عام صارف کی ہرگز نہیں اس کے عمومی طور پر تین طرح کے صارف ہیں، تیسرا صارف عام آدمی ہوتا ہے۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا اگر ہم ایک عید پر نئے کپڑے نہیں پہنیں گے تو جنت میں الاٹ ہوئے پلاٹ کا رقبہ سزا کے طور پر کم ہو جائے گا۔ ہمارے یہاں کتنے لوگوں نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ نصف سے زیادہ آبادی ایک اندازے کے مطابق 68فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، 13فیصد شہری آبادی نے تو زندگی میں کبھی دیہات ہی نہیں دیکھا، تین فیصد دوران سفر کھیتوں کا نظارہ کرتے ہیں۔ مجھے احساس ہے کہ پڑھنے والوں کو آج یہ ساری باتیں عجیب لگ رہی ہوں گی لیکن میں پڑھنے والوں سے زیادہ حیران ہوں، سپریم کورٹ میں وفاقی وصوبائی حکومتوں کے موقف این ڈی ایم اے کی رپورٹ اور وزارت صحت کے جوازات پر۔ مقرر ابتدائی سطور والی بات دہراتا ہوں ہم میں سے کوئی بھی اپنے حصہ کا کام نہیں کرنا چاہتا۔ کچھ کڑوی کسیلی باتیں ہیں مگر حد ادب مانع ہے اس لئے فقط ایک سوال وہ یہ کہ اب اگر خاکم بدہن کورونا کا پھیلاؤ ہوا تو ذمہ دار کون ہوگا؟ تاجروں اور عام شہریوں نے پچھلے چند دنوں میں ایس او پیز کو جس طرح ہوا میں اُڑایا اور جیسے سوموار کو ”پولے سے منہ سے” کہہ دیا گیا ملک میں کورونا وباء نہیں ہے اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔ یہ این ڈی ایم اے والے کیسے کہتے ہیں کہ انہیں رقم نہیں ملی؟ امریکہ اور جاپان والے 58ملین ڈالر انہیں براہ راست دے دئیے گئے، تین مرحلوں میں وفاقی حکومت نے 25 ارب روپے فراہم کئے، صوبوں نے الگ سے اس ادارے کو پیسے دئیے اور خود بھی خرچ کئے، چلیں ایک سوال ہے این ڈی ایم اے نے اب تک چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کی حکومتوں کو کتنا امدادی سامان (حفاظتی) دیا کیونکہ اس ادارے کے سربراہ کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم نے سامان کو ہیڈکوارٹرزکو بھجوایا ہے وہاں سے ہسپتالوں کو تقسیم ہوگا۔ حرف آخر یہ ہے کہ خدا کیلئے سنجیدگی اختیار کیجئے جوکہ اب تک کم کم دکھائی دی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ جس فہم وفراست کے مظاہرے اور سنجیدہ اقدامات کی ضرورت تھی ان دونوں سے منہ موڑنے کا مرض عام ہے۔ لے دیکر اب یہی ہے کہ دست دعا بلند کیجئے لیکن کیا دواؤں کے بغیر دعائیں کام آئیں گی؟۔

مزید پڑھیں:  سلامتی کونسل کی قراردادکے باوجوداسرائیل کی ہٹ دھرمی