editorail 4

طالبان کیساتھ مذاکرات’ امریکہ یا بھارت کی ضرورت؟

امریکہ کے صدارتی انتخابات جوں جوں قریب آتے جا رہے ہیں امریکہ طالبان سے کیے گئے دوحہ معاہدے کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔ اسی کوشش میں امریکہ نے کابل میں ہسپتال پر حالیہ حملے کو ماضی سے برعکس جب اس قسم کے کسی بھی حملے کو فورا طالبان سے جوڑ دیتا تھا اسے داعش کی کارروائی قرار دیا ہے۔ ان کوششوں میں اب بھارت کی حکومت پر بظاہر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ طالبان سے بات چیت کرے۔ امریکہ صدر کے افغانستان سے متعلق نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ایک حالیہ انٹرویو میں بھی کہا کہ بھارت کے لیے طالبان سے بات کرنا مناسب ہوگا۔ پاکستان نے بھی تقریبا اسی قسم کی خواہش کا ڈھکے چھپے الفاظ میں اظہار کیا ہے اور بھارت کو بالواسطہ اشارہ دیا ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے طالبان سے مذاکرات کرے۔ افغانستان میں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان گذشتہ اتوار طے پانے والا معاہدہ بھی اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ بظاہر ان کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے طالبان سے منسوب ایک جعلی بیان میڈیا میں جاری کیا گیا جس میں بھارت میں جاری مسلمان کش اقدامات کیخلاف عیدالفطر کے بعد جہاد کا اعلان کیا گیا۔ طالبان قیادت نے فوراً اس بیان کی تردید کی اور اسے جعلی قرار دیتے ہوئے بھارتی حکومت کو مذاکرات کی پیشکش کر دی۔ اس پیشکش میں کہا گیا ہے کہ اگر بھارت افغانستان سے متعلق اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے تو وہ اس کیساتھ مذاکرات کر سکتے ہیں۔ اس تردید سے طالبان نے کافی سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کیا ہے۔ یقینا وہ جانتے ہیں کہ بھارت کیخلاف کسی قسم کی جہاد یا پرتشدد کارروائیوں کے ان کیلئے سنگین نتائج بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر وہ امریکہ سے امن کیلئے بات چیت کر رہے ہیں تو وہ ایک دوسرا غیرضروری محاذ کیوں کھولیں گے۔ بھارت کیخلاف کارروائیاں چند جنگجو تنظیموں یا افراد کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن بظاہر طالبان کو اس سے کچھ خاص سیاسی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس قدم سے ساری بین الاقوامی طاقتیں دوبارہ ان کیخلاف سرگرم ہو سکتی ہیں۔ اس لیے افغانستان میں امن مذاکرات کے اس اہم مرحلے میں طالبان سے کسی قسم کی سیاسی خودکشی کی امید نہیں کی جاسکتی ہے۔ طالبان کو بھارت پر حملہ کرنے کے لیے پاکستان کی سرزمین کی ضرورت ہوگی اور پاکستان موجودہ حالات میں اس قسم کی مہم جوئی کے لیے کسی طرح بھی مددگار نہیں ہوگا۔ کچھ تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ یہ دھمکی اور اس سے فوری لاتعلقی بھی طالبان کی ایک حکمت عملی ہوسکتی ہے جس کا مقصد بھارت کو مجبور کرنا ہے کہ وہ موجودہ افغان حکومت کی حمایت بند کرے اور ایک غیر جانبدار کردار ادا کرتے ہوئے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے طالبان سے براہ راست بات کرے۔ یقینا اس قسم کے بیانات دے کر بھارت کو مجبور کیا جاسکتا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کی جائز حیثیت کو تسلیم کرے۔ طالبان کے نمائندے کا اعلان سے لاتعلقی کا بیان بھارتی حکومت کو بات چیت کی طرف راغب کرنے کا ایک مضبوط اشارہ ہے۔ بھارت کو بھی احساس ہے کہ طالبان میں اور ہمسایہ ممالک میں کچھ عناصر ہیں جو بھارت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہیں گے اور انہیں غیر ضروری طور پر چارہ مہیا کرنے کی ضرورت نہیں جبکہ بھارت کو کشمیر میں ایک بہت بڑی بغاوت کا سامنا ہے۔ اگر بھارت ان مذاکرات کے لیے آمادہ ہوتا ہے تو یہ ڈاکٹر اشرف غنی کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکا ہوگا جو ان پر دباؤ میں مزید اضافہ کرسکتا ہے کہ وہ طالبان سے مذاکرات اور مستقبل کی حکومت کے قیام کے لیے سنجیدہ بات چیت کا آغاز کریں۔ پچھلے کچھ مہینوں کے واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ بھارت طالبان کی اس پیشکش پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ یاد رہے کہ جب امریکہ نے افغانستان سے اپنی افواج کی واپسی کا عندیہ دیا تھا تو بھارت کو فکر لاحق ہوئی اور اس نے پس پردہ طالبان سے رابطوں کی کوشش شروع کر دی تھی۔ اسی سال کے شروع میں نئی دہلی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں بھارتی آرمی چیف نے بھی طالبان سے مکالمے کی حمایت کی۔ ایک امریکی جریدے میں شائع مضمون کے مطابق بھارت نے2005 میں بھی طالبان سے رابطے کیے تھے۔ موجودہ رابطوں میں بھارت نے خواہش کا اظہار کیا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں بھارتی تنصیبات اور مفادات کو نقصان نہ پہنچے۔ افغانستان میں پائیدار امن کیلئے ضروری ہے کہ تمام بین الاقوامی طاقتیں اور خطے کے ممالک ایک مشترکہ حکمت عملی پر کام کریں ۔ اسی طرح افغان مسئلے میں شریک تمام جنگی گروہوں بشمول طالبان کو اپنے آپ کو متحرک سیاسی تحریک میں بدل کر اپنے سیاسی نظریات کو افغان عوام پر واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ ان سب قوتوں کا مقصد افغانستان میں ایک جمہوری معاشرے کی تشکیل ہونا چاہیے۔ موجودہ افغان حکومتی قیادت کو بھی اپنے ذاتی یا نسلی مفادات سے آگے بڑھ کر ایک وسیع البنیاد عبوری حکومت کے قیام پر جلد از جلد اتفاق کرنا چاہیے تاکہ افغان عوام کی بدنصیبی کا اختتام ہو سکے۔
(بشکریہ : انڈیپنڈنٹ)

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ