editorail 3

ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے

\وہ جو شاعر نے کہا تھا کہ آج ہم اپنی پریشانی خاطر ان سے، کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھئے کیا کہتے ہیں یعنی رمضان کے آغاز سے ہی اچانک ایک ایسی افتاد آن پڑی تھی کہ جس نے ہمارے روٹین کو بدل کر رکھ دیا تھا اور ہم جو ہفتے کے دوران ایک دو وقفے کرکے باقی کے دنوں میں کالم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے، اگر آپ ذرا غور سے دیکھیں تو اس دوران ہمارے کالم تین تین دن کے وقفے سے شائع ہوتے رہے، اس کا کارن یہ تھا کہ ہمیں ملیریا بخار نے آلیا تھا، اسی پر بس نہیں بلکہ ہمارا بلڈپریشر بھی 70/60پر پہنچ گیا تھا، کم بلڈپریشر کی وجہ سے چکر آرہے تھے، لکھنے کی نیت کرتے تو سر چکرا کر رہ جاتا، کمزوری اور نقاہت نے کہیں کا نہیں رکھا، علاج کیلئے ہسپتال تو ویسے بھی او پی ڈیز نہیں چلا رہے تھے اور ان کی پوری صلاحیت صرف اور صرف کورونا کے علاج تک محدود تھی، دوسری جانب پرائیویٹ کلینک بھی عام دنوں کی طرح کھلے نہیں تھے، اب ایسی صورت میں یا تو ہسپتال سے رجوع کرنے کا ”سنگین خطرہ” مول لیا جاتا، جہاں کے بارے میں ایسی ہی باتیں سنتے آرہے تھے کہ کہیں خدانخواستہ پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق والی صورتحال پیش آنے کے خدشات تھے، بہرحال اللہ کی مہربانی سے اپنے ایک فیملی ڈاکٹر کے تجربہ کار عملے نے بہت مدد کی اور اللہ کے فضل وکرم سے اب بہت حد تک افاقہ ہے مگر کمزوری پر مکمل قابو ابھی پانا باقی ہے جس کیلئے کوششیں ہورہی ہیں، اس دوران جیسا کہ گزارش کر چکا ہوں، جب بھی اور جس وقت بھی کالم مکمل ہوا، بھیجا تو ادارتی صفحے کے مہربان ساتھیوں نے اسے شامل اشاعت کر کے میری حاضری کو یقینی بنانے میں مدد کی حالانکہ بعض اوقات میں کام اتنی تاخیر سے مکمل کر پاتا کہ خوف رہتا شاید شامل اشاعت نہ ہو اور اگلے روز کی اشاعت میں شامل نہیں ہوسکے گا لیکن دوستوں نے میری بیماری کے طفیل دیر سے بھیجے ہوئے کالموں کو بھی شائع کر کے اپنی محبتوں کا ثبوت فراہم کیا۔ اس دوران اس کم بخت کورونا کی مچائی ہوئی تباہیوں نے عام لوگوں کو جس طرح نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے جبکہ بعض افواہیں (اب اسی حوالے سے الزامات بھی سامنے آرہے ہیں) ایسی تھیں جن سے عام لوگوں میں خوف دوچند ہوتا جا رہا تھا یعنی افواہیں یہ تھیں کہ جو لوگ کسی اور وجہ سے بھی جاں بحق ہو جائیں ان کو بھی کورونا کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے، اس حوالے سے گزشتہ روز ایم کیو ایم کے ایک رہنما شمیم نقوی نے سندھ حکومت پر الزام تک لگا دیا ہے بہرحال حقیقت کیا ہے یہ تو واقفان حال ہی بہتر جان سکتے ہیں، مگر اس نے جان نثار اختر کی یاد ضرور دلا دی ہے جنہوں نے کہا تھا
ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے
یہ زندگی تو کوئی بددعا لگے ہے مجھے
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے
میں اپنے ایک کالم میں پہلے بھی گزارش کر چکا ہوں کہ شاید کورونا اتنی تباہی نہ پھیلائے جتنی کہ انسان نے اسے پروپیگنڈے کے طور پر قدم قدم استعمال کر کے عام سادہ لوح لوگوں کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیا ہے، ہر موبائل کال پر ایک لمبی چوڑی تقریر آپ کو اس وباء کے حوالے سے سننی پڑتی ہے، درمیان میں دو گھنٹیاں بجتی ہیں اور پھر وہی بھاشن سنائی دیتا ہے۔ اخبارات کے اشتہارات کا سارا نظام کورونا کے ماتحت چل رہا ہے، صابن کے اشتہارات ہوں یا پھر بنکوں میں جا کر رقوم جمع یا نکلوانے کی بات ہو ایس او پیز پر عمل کرنے کی ہدایات کی بھرمار ہوتی ہے، غرض زندگی کا وہ کونسا شعبہ ہے جس نے اس کورونا کا احاطہ نہ کیا ہو، ان سب سے قطع نظر سوشل میڈیا پر آپ کا ہر جاننے والا اس وباء کے حوالے سے ملنے والی تازہ خبر بیماری سے بچنے کی بعض حقیقی اور بعض خودساختہ تدابیر، نسخے، ٹوٹکے اور نہ جانے کیا کیا، جب تک آپ کو نہ بھیجے اسے کسی کل چین نہیں آتا، اس قسم کی واٹس ایپ کالز وغیرہ کی بھرمار دیکھ کر ہی آپ کا اگر بیماری میں مبتلا نہ ہونے کا دل بھی کرے تو پاگل ہو جانے کا ضرور جی کرتا ہے۔ اب ہر شخص کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ہی اسے کوئی تیربہدف نسخہ مل جائے اسے فوراً دوسروں کو بھیج کر ثواب دارین کے حصول کو ممکن بنا ڈالے، یہ سوچے بغیر کہ ممکن ہے یہ نسخہ جس طرح سے اسے کسی نے بھیجا ہے آپ تک بھی اس کی رسائی ممکن بنا دی گئی ہو، مگر کہاں صاحب! اس سوشل میڈیا کے ”ارطغرل غازیوں” نے آپ کو تب تک معاف نہیں کرنا جب تک انہیں پورا پورا یقین نہ ہو جائے کہ ان کا پیغام نہ صرف آپ پورا پڑھ چکے ہیں بلکہ وہ آپ کو ازبر بھی ہو چکا ہے اور اب آپ جب چاہیں کسی اور کو سنا کر بھی یہ پیغام دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں۔ یہ جن دنوں کے کالموں کے درمیان زیادہ وقفوں کی بات میں نے کی ہے اس دوران کئی روز تک میں نے خود کو سوشل میڈیا سے دور رکھنے کی بہت حد تک کامیاب کوشش کی اور کئی روز تک نہ فیس بک، نہ واٹس ایپ، نہ ٹیوٹر نہ ہی یوٹیوب کھولنے کی غلطی کی مگر جیسے ہی طبیعت ذرا سی سنبھلی اور گزشتہ روز نیٹ آن کیا تو جناب مختلف پیغامات کی بھرمار تھی، اکیلے واٹس ایپ پر کوئی تین ساڑھے تین سو پیغامات روشن ہونے کو بے تاب وبے قرار تھے، اسی طرح فیس بک بھی بھرا ہوا تھا جبکہ یوٹیوب بھی کسی سے پیچھے کیا رہتا، میں تو حقیقت یہ ہے کہ گھبرا کر رہ گیا، مگر پھر تھوڑے تھوڑے کر کے میسج کچھ دیکھتا اور کچھ غیرضروری سمجھ کر ڈیلیٹ کرتا چلا گیا، دو دن میں ان سے بہ مشکل جان چھوٹی اسلئے وہ جو اُردو ادب کا مشہور مضمون ہے ”مجھے میرے دوستوں سے بچاؤ” تو یہ سوشل میڈیا بھی اب اسی زمرے میں شامل ہو رہا ہے۔ اس لئے دوستوں سے التماس ہے کہ خدا کیلئے کچھ تو رحم کیجئے، ہر شخص کو ہر پیغام ارسال کرنے سے اس کا کیا حشر ہو سکتا ہے اس بارے میں بھی ضرور سوچئے۔

مزید پڑھیں:  پولیس کی بروقت کارروائی اور تشدد