p613 17

بھارت کو ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے

بھارت کی جانب سے پاکستان سے مبینہ جاسوس کبوتر کی انڈیا جانے اور جواباً جاسوس ڈرون بھجوانے کے بعد جسے پاکستانی ائیر ڈیفنس نے اپنی حدود کے اندر گرایا، اب تازہ اقدام کے طور پر نئی دہلی میں تعینات دو پاکستانی سفارتکاروں کو ناپسندیدہ قرار دے کر ملک سے چلے جانے کا حکم دیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے الزامات کی تردید کی ہے، گزشتہ چاربرسوں میں بھارت کی طرف سے پاکستانی ہائی کمیشن کے کسی افسر کو اپنے ملک سے نکالنے کا یہ پہلا واقعہ ہے اس سے قبل2016ء میں دونوں ملکوں نے جا سوسی کے الزام میںایک دوسرے کے سفارتخانوں کے ایک ایک افسر کو ملک سے نکال دیا ہے۔ یہ امر تقریباً عام ہے کہ ہر ملک کے اہلکار سفارتخانوں میں کورپوسٹوں پر تعینات ہوتے ہیں اور دنیا کے ممالک کو پرسونا نان گرانٹا کے تحت ان اہلکاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کا طریقہ کار موجود ہے، بھارت کے بعد اب پاکستان کی جانب سے بھی اس طرح کا جوابی اقدام متوقع ہے۔ اس سے جنوبی ایشیاء کے دو جوہری طاقت سے لیس دو ممالک کے درمیان پہلے سے کشیدہ تعلقات میں اضافہ ہونے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔پاکستان نے حال ہی میں اگرچہ کسی بھارتی سفارتی اہلکار کیخلاف تو کوئی کارروائی نہیں کی البتہ کراچی میں پولیس کے ایک اے ایس آئی اور سپیشل برانچ کے ایک اوسط درجے کے عہدیدار کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کیلئے کام کرنے پر گرفتار کیا ہے جس کے ماضی میں کراچی میں دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا شبہ ہے۔ دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں کو ناپسندیدہ قرار دینا اور انہیں ملک چھوڑ نے کا حکم قابل مذمت ہے، بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت کا یہ عمل منفی اور پہلے سے طے شدہ میڈیا مہم کا حصہ ہے اور یہ پاکستان کیخلاف منفی پروپیگنڈے کا تسلسل ہے۔ بھارت نے ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی اہلکاروں پر تشدد بھی کیا اور ان کو الزام قبول کرنے پر مجبور کیا۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مزید کشیدگی کا خطرہ ہے جو پہلے ہی گزشتہ برس اگست میں مودی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردیئے جانے کے بعد کشیدہ چلے آرہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد دونوں ملکوں نے اپنے اپنے ہائی کمیشنرز کو واپس بلا لیا تھا اور اس وقت ڈپٹی کمشنر کی سطح پر دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی روابط ہیں، اس واقعے کے بعد اب اس ایک درجہ کم کے سفارتی تعلقات بھی خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ بھارت کی جانب سے وقتاً فوقتاً پاکستان کیساتھ تعلقات میں بگاڑ لانے کی سوچی سمجھی سازشیں ہوتی رہتی ہیں، تازہ اقدام اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔بھارت نے پاکستانی علاقوں کے موسم کا حال دکھانے، گلگت بلتستان پر حملے کی مبینہ منصوبہ بندی اور اس جیسے دیگر اقدامات سے مسلسل پاکستان کو اُلجھائے رکھنے کی پالیسی پر کارفرما ہے۔ عید الفطر کے موقع پر آرمی چیف مشرقی سرحد پر تعینات جوانوں کیساتھ عید کا دن گزارنے کے موقع پر بھارت کو سخت پیغام دیکر واضح کرچکے ہیں کہ پاکستان بھارت کے ارادوں سے غافل نہیں، اس کے باوجود امن کا دامن تھامے رکھنا پاکستان کی تحمل والی پالیسی کا حصہ ہے جس کا بھارت ناجائز فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں حالات سے دنیا کی نظریں ہٹانے کیلئے کشیدگی کی آڑ لینا چاہتا ہے جس کے باعث جنوبی ایشیاء میں بدامنی اور کشید گی کی فضا پیدا ہوگئی ہے۔ بھارت بیک وقت چین،نیپال اور پاکستان کیساتھ خواہ مخواہ سینگ اڑانے کی سعی میں ہے جس میں ان کو منہ کی کھانی پڑے گی۔پاکستان کو بھارت کے اقدام کا جواب بھارت کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلبی سے بڑھ کر جواب دینے کی ضرورت ہے، پاکستان کو بھی بھارت کے اقدام کے برابر جوابی کارروائی کرنی چاہئے تاکہ بھارت کو معلوم ہو کہ پاکستان سرحدوں پر تو تحمل کی پالیسی اختیار کر سکتا ہے لیکن سفارتی طور پر بھارت کے اقدام کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟