editorial 2 7

نئی گریٹ گیم کے اُبھرتے خدوخال

چین اور بھارت میں جو کشیدگی پھوٹ پڑی ہے یہ اچانک ہرگز نہیں جیسا کہ کچھ تجزیہ نگاروں کی رائے ہے جو اس کے پیچھے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے مسائل سے توجہ ہٹانے کی سوچ کہہ کر ڈاؤن پلے کر رہے ہیں۔ یہ اصل معاملے کی طوالت اور سنگینی کو کم کرکے ظاہر کرنا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کورونا کے اثرات مرتب ہونے سے پہلے پہل فریقین نے متعین کردہ راستے پر اپنی رفتار تیز کر دی۔ چین نے ایک جست لگا کر ان علاقوں پر اپنا کنٹرول مستحکم کر دیا جو سی پیک کے آغاز تک پہنچنے کیلئے خاصی اہمیت کے حامل تھے اور بھارت ہاتھ ملتا رہ گیا ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحدی تنازعات بہت پرانے اور گہرے ہیں اور یہی تنازعات1962 کی چین بھارت جنگ کا موجب بھی بنے ہیں۔ اس جنگ میں بھارت کو ایسی شکست سے دوچار ہونا پڑا کہ دوبارہ اس میں چین سے دوبدو معرکہ آرائی کی خواہش ہی دب کر رہ گئی۔ بھارت نے اس جنگ سے سبق سیکھ کر متنازعہ سرحدی علاقوں میں انفراسٹرکچر نہ بنانے کا حتمی فیصلہ کیا مبادا کہ کبھی چین ان علاقوں پر قبضہ کرکے اس انفراسٹرکچر کو استعمال کرے۔ دہائیاں اسی سوچ کے تحت گزرتی چلی گئیں چین اور بھارت میں براہ راست تصادم تو نہ ہوا البتہ سرحدی تنازعات کی کھینچا تاتی جاری رہی۔ یہاں تک 1988 میںبھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے چین کا دورہ کرکے سرحدی تنازعات میں طاقت کے استعمال نہ کرنے اور ان تنازعات کو بات چیت اور افہام وتفہیم کیساتھ حل کرنے کا معاہدہ کیا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان ایک گولی کا تبادلہ نہ ہوا۔ اس دوران سرد جنگ کا بڑا کھیل اختتام کو پہنچا اور عالمی طاقتوں کی نئی ضرورتیں انہیں نئے دشمن تراشنے اور نئے چیلنج تلاشنے پر راغب کر بیٹھیں۔ کمیونزم کے انہدام کے بعد امریکہ نے مستقبل کے جن چینلجز کی نشاندہی کی ان میں کنفیوشس تہذیب شامل تھی۔ امریکہ مسلمانوں کا تعاقب کرتا رہا اس دور میں چین نہایت خاموشی کیساتھ اپنی اقتصادی طاقت بڑھاتا رہا۔ تجارت کے نام پر دنیا میں مشرق سے مغرب تک اپنا سکہ جماتا رہا۔ اپنے کھانوں کے ذریعے دل تک اُترنے کا شارٹ کٹ اپناتا رہا، اپنی سستی مصنوعات کے ذریعے عام آدمی کا من موہ لیتاچلا گیا۔ اپنی دیوہیکل ترقی کے ذریعے دنیا کے دماغوں کو چکراتا اور ان کی نگاہوں کو خیرہ کرتا رہا۔ چین کا سٹائل خاموش، باوقار اور غیرمحسوس پیش قدمی رہا اس لئے امریکہ کی آنکھ اس وقت کھلی جب چین ایک بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت کے طور پر میدان میںموجود تھا۔ چین کو محدود رکھنا اور اس کے گرد گھیرا ڈالنا برسوں پرانا منصوبہ تھا مگر یہ کام ہزاروں میل کی دوری سے نہیں ہو سکتا تھا اس کیلئے چین کے اردگرد ایسے شراکت دار تلاش کئے جا رہے تھے جو دائیں بائیں سے چین کے اثر ورسوخ کو بڑھنے سے روکے رکھیں۔ بھارت چین کا ہمسایہ بھی تھا اور دونوں میں تزویراتی اختلافات بھی تھے اس لئے اس کام کیلئے بھارت پر امریکہ کی نظریں بہت پہلے جمی ہوئی تھیں۔ چین کے گھیراؤ میں جنوب مشرقی ایشیا کی جانب سے جاپان ویت نام جنوبی کوریا اورجزائر ملاکا کی طرف سے آسڑیلیا اور دوسرے ملکوں کو سرگرم کرکے بھارت کیساتھ ان کا ایک سٹریٹجک اتحاد بنانا مقصد تھا۔ اس سکیم میں صرف ایک رکاوٹ تھی اس کا نام پاکستان تھا۔ پاکستان اس سکیم کو ناکام بھی بنا سکتا تھا اور کامیاب بھی مگر امریکہ کی بدقسمتی یہ تھی کہ پاکستان چین کیساتھ گہرے دفاعی تعلقات کی ڈور میں بندھا تھا اور دونوں اس راہ پر ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے کی قسموں اور وعدوں کی زنجیر میں بندھے تھے۔ پاکستان کیلئے حکم یہ تھا کہ چین سے اپنا راستہ الگ کرے اور بھارت کے ہاتھ مضبوط کرے۔ پاکستان نے اس کیلئے نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی مسئلہ کشمیر کے حل کی شرط رکھی تھی۔ اسی شرط کی تکمیل کیلئے نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی امریکہ کی سرپرستی میں پاک بھارت ٹریک ٹو ڈپلومیسی کا آغاز ہوگیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی اور تعلقات کے رنگ برنگے پروجیکٹس لانچ کئے جانے لگے اور ان پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ دونوں ملکوں میں سیاسی تنازعات کو پس پشت ڈال کر اقتصادیات کو بنیاد بنانے کی سوچ کو فروغ دیا گیا مگر یہ کوشش کارگر نہ ہو سکی جس کے بعد سردجنگ کے آخری مرحلے کی طرح سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان پسنے کے انداز میں پاکستان چین اور امریکہ کی کھینچا تانی میں پھنس کر رہ گیا۔ پاکستان پنڈولم کی طرح امریکہ اور چین کے درمیان جھولتا رہا مگر اس کا زیادہ اور دلی جھکاؤ چین کی طرف ہی رہا۔ اسی زورا زوری میں چین نے اپنے برسوں پرانے سی پیک کا بلو پرنٹ میز پر رکھا اور پاکستان نے اسے قبول کیا۔امریکہ نے جنوبی ایشیا کو بھارت کی عینک سے دیکھنا اپنی عادت بنالی ، اس سے بھارت کی حکمران اشرافیہ نخوت اور تکبر کی ہواؤں میں اُڑتی چلی گئی۔ امریکہ کے پڑھائے ہوئے سبق کے مطابق بھارت نے اپنی سرحدی پالیسی میں تبدیلی لاتے ہوئے سڑکوں کا جال بچھانا شروع کیا۔ چین کیساتھ پنتیس سو کلومیٹر طویل سرحد پر608 کلومیڑ کی ستائیس رابطہ سڑکوں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں جابجا کشیدگی پیدا ہوتی چلی گئی کیونکہ بہت سے مقامات پر سرحدوں کو پوری طرح تعین بھی نہیں۔ یہ سرحد تینوں سیکٹرز میں تقسیم ہے، مغربی سیکٹر میں لداخ وسطی سیکٹر میں ہماچل پردیش اتراکھنڈ، سکم اور مشرقی سیکٹر میںارونا چل پردیش تک جاتی ہے۔ اس سرحد میں دودرجن مقامات پر چین اور بھارت کے درمیان تنازعات ہیں۔ (جاری ہے)

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی