editorial 4 8

کوئی صورت نظر نہیں آتی

گرمی کی آمد کیساتھ ہی لوڈشیڈنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے، بجلی کا آنا جانا تو سردی میں بھی لگا رہتا ہے لیکن پنکھوں کی بندش کی وجہ سے کوئی لوڈشیڈنگ کی زیادہ فریاد نہیں کرتا۔ گرمی کے موسم میں لوڈشیڈنگ اپنے وجود کا احساس دلاتی ہے اور ساتھ ہی بجلی کے بھاری بھر کم بل بھی آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس سال کرونا کی برکت سے ہیوی ویٹ قسم کے یوٹیلیٹی بل تو نہیں آرہے لیکن مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں، آہ وفغاں پر یاد آیا ہمارے یہاں نانبائی اور حجام کی دکان دو ایسے مقامات ہیں جہاں عام آدمی اپنے غم وغصے کا اظہار کرتا رہتا ہے مگر ہر دور کے اپنے موضوعات ہوتے ہیں، انتخابات کے دنوں میں لوگ گلے کی رگیں پھلا کر باآواز بلند اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کی تعریف میں مصروف نظر آتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ جب انتخابات کا موسم آتا ہے تو ہر طرف غریب عوام کے ہی چرچے ہوتے ہیں، جمہوریت کی شان میں زمین وآسمان کے قلابے ملائے جاتے ہیں سیاستدان غریب آدمی کو اتنی محبت اور پیار سے گلے لگاتے ہیں کہ وہ بیچارا اپنے آپ کو بھی چھوٹا موٹا سیاستدان سمجھنے لگتا ہے، ان بحث مباحثوں میں اکثر نوبت سر پٹھول تک بھی پہنچ جاتی ہے لیکن کیا مجال جو غریب آدمی اپنے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹے وہ تو اسے بہت بعد میں پتا چلتا ہے کہ غریب آدمی کی عزت کا سارا ڈھونگ تو انتخابات کیلئے چلایا گیا تھا، ووٹ حاصل کرنے کیلئے اسے بہت سے سبزباغ دکھائے گئے تھے، کل نانبائی کی دکان پر لوڈشیڈنگ کے حوالے سے بڑا جذباتی قسم کا احتجاج ہو رہا تھا ایک صاحب کہہ رہے تھے کہ چلو یار حکومت کی کچھ مجبوریاں ہوں گی اس لئے گرمی کی آمد کیساتھ ہی لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بڑھا دیا ہے لیکن رات کو تین بجے لوڈشیڈنگ کی سمجھ نہیں آتی، گرمی کی چھوٹی سی رات اور پھر آدھی رات کو بجلی غائب ہوجاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے رو روکر آسمان سر پر اُٹھا لیتے ہیں یو پی ایس یا جنریٹر لگانے کی استطاعت سب کی تو نہیں ہوتی، دن بھر کرونا کی دہشت اور رات کو لوڈشیڈنگ کا عذاب، آج کل کرونا ہی ایک ایسا موضوع ہے کہ اس پر ایک مرتبہ بات چیت کا سلسلہ چل پڑے تو پھر رکنے میں نہیں آتا، کرونا کے ذکر کیساتھ ہی نانبائی کی دکان پر موجود ہر شخص کرونا کرونا کرنے لگا کرونا کیساتھ جڑی ہوئی دوسری بہت سی چیزوں کا ذکر بھی شروع ہوگیا
کوئی اُمید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اب لوڈشیڈنگ سب کو بھول چکی تھی، ایک صاحب کہنے لگے جناب حکومت بھی کیا کرے اسد عمر کہتے ہیں لوگوں کی زندگیاں بند کرکے ملک آگے نہیں چل سکتا، رمضان کے وسط میں عوام نے بڑے ڈسپلن کا مظاہرہ کیا لیکن آخری عشرہ کے شروع ہوتے ہی لوگ عید کی تیاریوں میں مصروف ہوگئے اور پھر عید پر قواعد وضوابط کی خلاف ورزی نظر آئی۔ انہوں نے ایک اور غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی ہے کہ کرونا کیسز بڑھنے اور اموات ظاہر کرنے پر عالمی ادارہ صحت کوئی رقم نہیں دیتا، یہ سب افواہیں ہیں۔ جناب افواہیں تو اور بھی بہت سی گردش میں ہیں، اب عوام کا منہ کون بند کرسکتا ہے۔ پشاور میں تو ایک اور افواہ بھی گردش میں ہے کہ ہیروئن کے عادی افراد کو بھی کرونا کے مریض ظاہر کرکے قرنطینہ کیا جارہا ہے۔ دراصل اس قسم کے حالات میں سچ جھوٹ کی پہچان ختم ہوجاتی ہے جتنے منہ اتنی باتیں۔ ان کی باتیں سن کر ذہن میں خیال آیا کہ ہمارے یہاں نہ ختم ہونے والے مسائل ہی مسائل ہیں، کبھی لوڈشیڈنگ کا رونا تو کبھی مہنگائی کی فریاد، کبھی ڈینگی کے حملے اور اب کرونا کی دہشتگردی، مسائل اتنے پیچیدہ ہوچکے ہیں کہ اب کسی کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ کیا کیا جائے، سرکاری دفاتر کھل چکے ہیں، اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ایس او پیز پر مکمل طور پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، کرونا کے مریضوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہو رہا ہے، مکمل لاک ڈاؤن بھی ممکن نہیں ہے بس احتیاط ہی کی جاسکتی ہے۔ اپنے اپنے حالات کی بات ہے کرونا کے پھیلاؤ کی وجہ سے ابوظہبی کو ایک ہفتے کیلئے مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت میں ایک ہفتے تک کسی کو بھی داخلے کی اجازت نہیں ہوگی اور یو اے ای کے رہائشی ابوظہبی سے دبئی بغیر اجازت نامہ سفر نہیں کرسکیں گے۔ بنگلہ دیش کی صورتحال مختلف ہے وہاں کرونا وائرس کی وجہ سے جاری لاک ڈاؤن ختم کر دیا گیا ہے اور لوگوں نے اپنے اپنے کام کے مقامات کی طرف سفر شروع کردیا ہے۔ اسی طرح چین میں کرونا کا کوئی نیا کیس رپورٹ نہیں ہوا وہاں سکول کھل چکے ہیں اور بچوں کو سکولوں میں کھیلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ (باقی صفحہ7بقیہ نمبر3)

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر