1 138

بھارت کی اور کہہ مکرنیاں

بھارت سرکار کا شیوہ ہی یہ ہے کہ وہ اپنی تمام چالیں کہہ مکرنیوں کے ذریعے ہی چلا کرتا ہے، جب سوویت یونین سے آنکھ مٹکا تھا تو اس وقت بھی وہ خطے کا تھانیدار بننے کے خواب کی تعبیر کی مساعی میں ٹھمکتا رہتا تھا اور جب سے اس کا یارانہ امریکا سے ہوا ہے تو وہ اس کو دنیا کی اکلوتی طاقت جان کر خطے میں اٹکھیلیاں مارتا رہتا ہے لیکن بھوکے ممنا کے قلاچوں کی طرح پھدکنے سے خود کی ٹانگیں توڑا بیٹھتا ہے۔ مودی سرکار اپنے ملک کے اندر تو بے بس مسلمان اقلیتوں سے کھلواڑ کرتا رہتا ہے مگر اس کو ہمسایوں سے بھی پھڈے کا شو ق چرائے رکھتا ہے، پاکستان اور چین سے تو وہ کھلا بیر رکھتا ہے مگر دیگر ہمسایوں کو بھی فطرت عقرب کی طرح ڈستا جاتا ہے، اب اپنے چین سے گھٹنے توڑوانے کے بعد بنیاگری کی یہ چال چلی ہے کہ سکم ولداخ میں منہ کی کھانے کے بعد امریکا اور چین کو آمنے سامنے لانے کیلئے کورونا کا ملبہ چین پر ڈالنا شروع کر دیا ہے، ٹرمپ جو مداری کی طرح بس بولتے ہی رہتے ہیں جب کورونا نے چین کو گھیرے میں لیکر اپنا رسا امریکا اور یورپ تک دراز کیا تھا اس وقت بھی یہ بول بولے تھے کہ کرونا کی ذمہ داری چین پر پڑتی ہے اسی نکتے کو اب شکست سکم ولداخ کے بعد بھارت نے اُچھالنا شروع کر دیا ہے، اب دن رات بھارتی ذرائع ابلاغ سرکار مودی کے اشارہ ابرو پر چیخ رہے ہیں کہ کرونا سے تباہی کا سبب چین ہے، چین نے ابھی تک بھارتی کاوشوں کا کوئی جواب نہیں دیا ہے، ویسے بھی چین ہر شوں شوں کا جواب نہیں دیا کرتا، البتہ امریکا سرکار اس معاملے میں مودی کیساتھ کس پیڑی پر براجمان ہے، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ٹرمپ سرکار جو مودی کی فطرت کی طرح انتہاپسند، معتصب پسند نظر آتے ہیں وہ اپنی حفاظت کی غرض سے وائٹ ہاؤس کے تہہ خانے میں سرد ہوگئے ہیں، کچھ نہیں معلوم آگے دنوں میں کیا ہونے والا ہے کیونکہ امر یکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جی ہاں پہلی مرتبہ نسل پرستی کیخلاف یا یوںکہہ لیجئے کہ کسی بھی مسلئے پر احتجاج کے سلسلہ میں ہنگامہ آرائی وائٹ ہاؤس کے اندر تک جا پہنچی ہے، اب بھلا ایسے میں جب خود پر پڑی ہوئی ہے اپنی نیبڑے یا پرائی دکھڑا سنبھالے یہ تو مانا کہ مودی میں بنیا کی چالاکی ہے مگر امریکن بھی لومڑی سے کم عیار نہیں ہیں اب جو چال بھارت سرکار چل رہی ہے وہ اس طرح چین اور امریکا کو آمنے سامنے لانے کی سعی نامراد کر رہی ہے۔ کرونا کیا ہے سوائے چین اور ترکی کے چاہے مودی ہوں یا عمران خان نیازی ہوں یا پھر ٹرمپ کے افکار ہوں سبھی وحشت زدہ ہیں، صحافی، دانشور ارسلا خان المعروف قلقلاخان نے گزشتہ روز آتے ہی سوال جھاڑ دیا بھئی زندگی کے کئی طویل برسوں میں مختلف باؤ کو اُترتے چڑھتے دیکھا ہے مگر کرونا کوئی منفرد درجے کی بلا ہے کہ پہلی مرتبہ حکومتیں عوام کو حوصلہ دینے کی بجائے اس کی ہولناکیوں کی وحشت میں مصروف نظر آرہی ہیں، ا س کی کیا وجہ ہے؟ قلقلا خان کا ارشاد عاقلانہ ہے کہ ماضی میں جتنی بھی بلائیں آئی گئیں اس دور کی حکومتوں نے ہمیشہ عوام کی تسلی کی ہے، نوید دی ہے کہ جلد ہی اس سے چھٹکارہ مل جائے گا، حکومت وبا سے چھٹکارے میں غفلت نہیں برت رہی ہے وغیرہ وغیرہ۔ ان وباؤں کے دور میں بھی عوام میں ایک بے چینی موجود رہتی تھی اور عوام حکومتی اقدام اور حوصلہ افزائی کو طفل تسلی جانتے تھے تاہم ایسی وحشت نہ پائی جاتی تھی، اس کرونا نے تو حوصلے ہی پست کر دئیے ہیں جو رہی سہی کسر تھی وہ بھی حکمرانوں اورارباب اقتدار کے حوصلہ پست کردہ بیانات نے پوری کرنا شروع کر دی ہے۔ یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھا وبائی دور ہے۔ وزیراعظم صاحب فرما رہے ہیں کہ پاکستان کے عوام اس وقت کرونا کیخلاف حالت جنگ میں ہیں، اب سوچنے کی بات ہے کہ جب حکمران ہی عوام کے کرونا سے لڑنے کے حوصلے پست کر دیں گے تو پھر مقابلہ کیا رہ جائے گا۔ پا کستان ہی کیا دنیا بھر کے برقی ذرائع ابلاغ ہوں یا کوئی دوسرے ہوں سب کا ایک ہی وتیرہ نظر آرہا ہے کہ سب سے پہلے زوردار لہجے یا الفاظ میں یہ منشور کیا جاتا ہے کہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں ڈھیروں انسانوں کے گلے میں کس قدر تک کرونا اُتر گیا ہے، ان اعداد وشمار کو سن کر جسم کپکپا جاتا ہے پھر طرفہ تماشا یہ کہ اس سے بڑھ چڑھ کر اس وبا سے مرنے والوں کی تعداد کو ایسا نشر کیا جارہا ہے کہ محسوس ہو رہا ہے انسان کرونا کو گلے میں نہیں نگل رہا ہے بلکہ کرونا انسانوں کو نگلتا جا رہا ہے، ان حالات میں دانشور قلقلا خان کا یہ سوال اپنی جگہ بنیاد رکھتا ہے کہ اگر کرونا میں مبتلا ہونے والوں کی جاری کردہ اعداد کی شرح کو دیکھا جائے اور اس سے لقمۂ اجل ہونے والوں کا شمار کیا جائے تو بات تشویشناک حد تک پہنچتی ہے مگر یہ محرکین اعداد وشمار جاری کرتے ہوئے کرونا کی وباء سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کو کیوں دھیمے لہجے سے بیان کرتی ہے۔ اب قلقلا خان کی اس گہری سوچ کا جواب کون دیگا؟ علاوہ ازیں ان کا یہ استفسار بھی کرنا ہے کہ اسپتال میں میں کرونا مریضوں کی تعداد گھر میں علاج کرانے والوں کی تعداد کی نسبت کیوں زیادہ ہے، اس کیساتھ ہی انہوں نے ایک اور شکایت بھی کر ڈالی کہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ تعداد میں ویڈیو وائرل ہو رہی ہیں کہ کرونا سے وفات پانے والوں کے لواحقین گڑگڑا کر شکایت کررہے ہیں کہ وہ اپنے عزیز کو کسی اور بیماری کی وجہ سے اسپتال لے جاتے ہیں مگر اسپتال انتظامیہ مبینہ طور پر ایسے مریض کو کرونا کے مرض میں مبتلاء قرار دیکر ان کی منشاء اور اجازت کے بغیر قرنطینہ میں ڈال دیتا ہے پھر کچھ گھنٹوں بعد اطلاع آجاتی ہے کہ مریض چل بسا، حکومت نے ایسی ویڈیو پر کیا اقدام کئے کیونکہ اس سے عوام میں قدر ہٹ کر سوچ اُبھر رہی ہے جو آگے چل کر انتہائی غیرمناسب ثابت ہو سکتی ہے، اس بارے میں حکومت کو چاہئے کہ ان شکایات کی تحقیق کرے اور عوام کو صحیح وواضح صورتحال سے آگاہ کرے۔ بات تو دانشور صاحب کی دل کو لگتی ہے اس طرف فوری توجہ کی ازحد ضرورت ہے ورنہ معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ لوگوں کا اسپتال جانے سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔ کیا یہ شکایت کسی مہم کے تحت چلائی جا رہی ہے یا کوئی خاص مقاصد کارفرما ہیں اور اس میں کس حد تک صداقت ہے۔

مزید پڑھیں:  ایران اسرائیل کشید گی اور سلامتی کونسل کی ناکامی