p613 18

مشرقیات

ایک مرتبہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسے نوجوان کے قریب سے گزرے جو باغ میں پانی لگا رہا تھا ۔ اس نے آپ علیہ السلام سے کہا کہ بارگاہ الٰہی میں دعا فرمایئے کہ رب العالمین اپنے عشق کا ایک ذرہ مجھے عنایت فرمادے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایک ذرہ تو بہت ہے ، تم اس کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ اس نوجوان نے کہا کہ ، صرف نصف ذرہ ہی عطا فرما دے ۔ اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پروردگار سے دعا مانگی : ” خدایا! اسے اپنے عشق کا نصف ذرہ رحمت عطا فرما دے ”۔ یہ دعا مانگنے کے بعد آپ وہاں سے تشریف لے گئے ۔ کچھ عرصہ بعد پھر اسی راستہ سے آپ علیہ السلام کا گزر ہو ااور اس نوجوان کے بارے میں دریافت کیا تو لوگوں نے بتایا کہ وہ تو دیوانہ ہوگیا ہے اورپہاڑوں پر چلاگیا ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پرور دگار عالم سے دعا مانگی : ”خدایا ! اس جوان سے میرا سامنا کردے ”۔
پھر آپ علیہ السلام نے دیکھا کہ وہ جوان پہاڑ کی ایک چھوٹی پر کھڑا ہو کر آسمان کی طرف دیکھے جارہا ہے ۔ آپ علیہ السلام نے اسے سلام کیا ، لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ آپ علیہ السلام نے اس سے فرمایا کہ تم مجھے نہیں جانتے میں عیسیٰ (علیہ السلا م )ہوں۔حق تعالیٰ کی طرف سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی کہ ”اے عیسیٰ ! جس کے دل میں میری محبت کا نصف ذرہ بھی موجود ہو ، وہ کس طرح انسانوں کی بات سن سکتا ہے ۔ مجھے قسم ہے اپنی عزت وجلال کی ، اگر اسے آرے سے چیر کردوٹکڑے بھی کر دیا جائے تو اسے احساس تک نہ ہوگا ۔
(مکاشفتہ القلوب باب 10صفحہ 84)
حضر ت ابن عباس کو سفر کی حالت میں بیٹی کی وفات کی خبر پہنچی ۔ یہ اندوہناک خبر سن کر اناللہ وناالیہ راجعون پڑھا ، پھر فرمانے لگے :(بیٹی ) ایک پردے کی چیز تھی ، جسے خدا تعالیٰ نے پردہ دے دیا ، ایک ذمہ داری تھی ، جسے خدا تعالیٰ نے ہلکا کردیا اوراجر ہے جسے حق تعالیٰ نے میری طرف چلایا ہے ، پھر سواری سے اتر کر دورکعت نماز پڑھی اور فرمایا : ہم نے وہی کیا ہے ، جس کا رب تعالیٰ نے ہمیں حکم فرمایا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ”اور صبر اور نماز سے سہارا حاصل کرو ”۔ (القرآن)
ایک تابعی کی ایک آدمی نے ان کے سامنے تعریف کی ۔ تابعی کہنے لگے : اے خدا کے بندے تو نے میری تعریف کس وجہ سے کی ہے ، کیا تونے مجھے غصہ کی حالت میں بردبار پایا ہے ؟ کہنے لگا نہیں ۔ کہا: کیا تونے کسی سفر میں میرا تجربہ کیا ہے اور مجھے اچھے اخلاق والا دیکھا ہے ؟ وہ بولا نہیں ۔ فرمایا : کیا پھر کوئی امانت رکھ کر میرا تجربہ کیا ہے اور مجھے امین پایا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا نہیں ۔ فرمانے لگے پھر تو بہت افسوس کی بات ہے کہ کسی شخص کو دوسرے کی تعریف اس وقت تک زیبا نہیں ، جب تک ان تین باتوں میں پرکھ نہ لے ۔

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی