2 193

کووڈ19 اور خطے میں بڑھتی عسکریت پسندی

ہر جانب یہ توقع کی جا رہی تھی کہ کرونا وبا کے پیش نظر خطے میں عسکری اور متشدد کارروائیوں میں کچھ کمی دیکھنے کو ملے گی مگر حقیقت اس کے برعکس نظر آرہی ہے۔ حال ہی میں ہونے والے کچھ دہشت گرد حملوں نے اس تاثر کو بالکل زائل کر دیا ہے۔ ان میں سب سے شدید اور افسوسناک کارروائی افغانستان کے شہر کابل میں ایک شیعہ بستی پر ہونے والا حملہ تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں بھی قبائلی اور سرحدی علاقوں میں سیکورٹی فورسز پر باقاعدگی سے حملے دیکھنے میں آرہے ہیں۔ مزید برآ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں پاک ایران سرحد کے قریب بھی علیحدگی پسندوں کے سیکورٹی افواج پر حملے توجہ کے مرکز رہے۔ ان حملوں نے جنرل باجوہ کو اپنے ایرانی ہم منصب سے اس اہم معاملے پر گفتگو کرنے پر مجبور کر دیا۔ یاد رہے کہ افغانستان میں ہونے والے حملے ان سب میں زیادہ خطرناک اور تباہ کن ثابت ہوئے کہ ان میں پاکستان میں ہونے والے حملوں کی نسبت کئی گنا زیادہ جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ طالبان نے ببانگ دہل یہ اعلان کیا ہے کہ چونکہ افغان حکومت دوہا معاہدے میں کئے جانے والے وعدوں سے روگردانی کر رہی ہے چنانچہ وہ افغان افواج کیخلاف عسکری کارروئیاں کرنے میں حق بجانب ہیں حتیٰ کہ طالبان نے رمضان کے تقدس اور کرونا وبا کے پھوٹنے کے بعد بھی حکومت کی جانب سے پیش کردہ جنگ بندی کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔
اس وقت افغان افواج پر طالبان حملوں کے پیچھے افغان حکومت کا امن معاہدے پر سنجیدگی سے عمل نہ کرنا ہی بنیادی وجہ ہے۔ طالبان اس بات کا واضح عندیہ دے چکے ہیں کہ وہ اسی وقت افغان حکومت کیساتھ براہ راست امن معاہدہ کرنے کیلئے رضامند ہوں گے جب ان کی جانب سے دوہا معاہدے پر عمل درآمد کیا جانے لگے گا۔ اس وقت تک طالبان اپنی پرتشدد کارروائیاں جاری رکھنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
اگلے دن افغان صوبہ غزنی میں افغان حساس ادراے پر کار بم دھماکہ کیا گیا جس میں سات افراد ہلاک ہوئے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کیساتھ اسے وقت افغان حکومت سے اپنا یہ مطالبہ بھی دہرایا کہ وہ قیدیوں کا تبادلہ جلد ازجلد شروع کرے تاکہ امن مذاکرات کیلئے راہیں ہموار ہو سکیں۔ یاد رہے کہ یہ کارروائی اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے آپسی سمجھوتے کے اگلے دن عمل میں لائی گئی جبکہ اُمید کی جارہی تھی کہ غنی عبداللہ اکھٹ اس تمام معاملے کو مؤثر انداز میں سلجھانے میں خاصا سودمند ثابت ہوگا۔ اس حوالے سے طالبان ترجمان سہیل شاہین نے ردعمل دیتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ کابل میں ہونے والا یہ معاہدہ صرف اور صرف ماضی میں ہوئے ناقص تجربات کی ایک کڑی ہے اور یہ کہ فریقین کو مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ اور پرخلوص حل تلاش کرنا چاہئیں۔ طالبان کی مسلسل پرتشدد کارروائیوں کے ردعمل میں صدر اشرف غنی نے بھی افغان افواج کو ایک سخت ردعمل دینے کا حکم دیدیا ہے اور اس سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے افغانستان میں پرتشدد کارروائیوں میں کمی کی بجائے اضافہ دیکھنے کو ملے گا۔
دوسری جانب پاکستان میں بھی پچھلے دو ماہ کے دوران دہشتگرد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ابھی حال ہی میں بلوچستان میں ایک افسر سمیت سات فوجی اہلکاروں کو ایک بزدلانہ حملے میں شہید کر دیا گیا تھا۔ یہ حملہ بولان کے علاقے میں اس وقت کیا گیا جب ایف سی اہلکاروں کی ایک گاڑی گشت پر گامزن تھی۔ گزشتہ ماہ کے آغاز میں بھی پاک ایران سرحد کے قریب ایک فوجی جتھے پر حملے کیا گیا تھا جس میں ایک میجر سمیت چھ فوجی جام شہادت نوش کر گئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ بلوچستان میں سرگرم عمل مختلف علیحدگی پسند تنظیموں نے ہی یہ حملے کئے تھے۔ گزشتہ دو ماہ کے دوران خیبر پختونخوا میں نئے نئے ضم کئے گئے قبائلی علاقے بھی سیکورٹی کے لحاظ سے حساس قرار دئیے جا رہے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے یہ خدشات زور پکڑتے جارہے ہیں کہ وہ ان علاقوں، بالخصوص شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اپنی موجودگی مستحکم کرتی جا رہی ہے۔ پاک افغان سرحد کے قریب ہماری سیکورٹی فورسز پر حملوں کی خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے تحریک طالبان پاکستان اور جماعت الاحرار کے دہشتگرد اورکزئی اور باجوڑ کے اضلاع میں دوبارہ اکھٹا ہونے کیلئے پل تول رہے ہیں۔
یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ کچھ دہشتگرد حکومت سے ایک ایسی رعایتی اسکیم ملنے کے خواہاں ہیں جس کے بعد وہ ہتھیار ڈال کر اپنے اپنے علاقوں میں ایک خاموش اور پرامن زندگی گزاریں گے۔ البتہ یہ تاثر کہ اب یہ عوامل سماج میں مکمل طرح گھل مل جانے کی سکت نہیں رکھتے، حکومت کیلئے مخالفت کا سامان مہیا کر رہا ہے۔ اسی کیساتھ بلوچ دہشتگردوں کیلئے بھی رعایت کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے کہ اب ان کے حملوں میں قطعی کوئی اثرانگیزی نہیں رہی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بھی دنیا بھر کے تمام کشیدگی والے علاقوں میں کرونا وبا کے دوران جنگ بندی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ پرتشدد کارروائیاں ایک ایسی دو دھاری تلوار ہے جو ظالم ومظلوم دونوں کے نقصان کا موجب بن سکتی ہے مگر موجودہ صورتحال میں تو یوں لگتا ہے جیسے یہ دہشتگرد گروہ کرونا وبا کی آڑ میںاس غیریقینی صورتحال کا ناجائز فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں کہ اس وقت حفاظتی حصارکافی نرم ہوئے پڑے ہیں۔
(بشکریہ پاکستان آبزرور، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  ڈیٹا چوری اور نادرا؟