4 92

ہر چند قربتیں رہیں، مگر فاصلہ رہے

خیبر پختونخوا میں سرکاری دفاتر کھل گئے۔ اخبار کی متعدد سرخیوں میں سے مژدہ جاں فضا سنانے والی یہ شہ سرخی پڑھ کر یوں لگا جیسے اک مدت سے جمود کی شکار زندگی کی زنگ آلود ٹرین اپنے ٹریک پر آکر ”کو چھک چھک” کے راگ الاپتی چل پڑی ہو۔ ہمارے منہ میں دودھ شکر، اللہ کرے ایسا ہی ہوا ہو، اگر گلشن کے کاروبار کی ٹرین ”کو چھک چھک” کرکے چل پڑی ہے تو اللہ کرے چلتی رہے، کوئی مائی کا لال اسے ”چلتی کا نام گاڑی کاطعنہ” نہ دے سکے اور کبھی بھی ہمیں ٹھنڈی آہیں بھر کر یہ کہنے کی ضرورت پیش نہ آئے کہ
نکالو کوئی بھی صورت کہ تیرگی کم ہو
ہمارا گھر ہی جلا دو جو روشنی کم ہو
بل پڑ گئے تھے ہماری سانسوں کی ڈوریوں میں اس کرونا وائرس کی وجہ سے، اک تذبذب، گنجلک اور مایوسی کا شکار ہوگئی تھی پوری کی پوری قوم، نہ صرف پوری قوم بلکہ اس گلوبل ویلیج کا ہر ہر فرد اس وباء کی وجہ سے موت کی گھاٹی میں پہنچ چکا تھا، شہر خموشاں بن گئی تھی ساری دنیا، ہر روز اس جان لیوا وباء کا شکار ہوکر جان کی بازی ہار جانے والوں کی تعداد میں خوفناک تیزی سے ہونے والے اضافہ کی المناک خبریں پہنچ رہی تھیں، نگر نگر گرتی لاشوں کے اس منظرنامہ نے صرف پاکستان، دنیا بھر کی حکومتوں کو لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور کردیا، شہروں سے ان کی رونقیں چھن گئیں، گلیوں اور بازاروں میں اک ہو کا عالم چھا گیا، دکانیں، کارخانے، ادارے اور سرکاری ونیم سرکاری دفاتر تاریخ کے جس بدترین سکوت کا شکار ہوئے اس نے دنیا بھر کی معیشت کو کنگال کرکے رکھ دیا جس کا ازالہ شائد برسوں میں بھی پورا نہ ہوسکے، کرونا کے متعلق کہا جاتا رہا کہ یہ نہایت کمزور وائرس ہے، صابن کی ذرا سی جھاگ سے ختم ہوجاتا ہے، دن میں باربار صابن سے ہاتھ دھونے کی تلقین کی جاتی رہی، منہ پر ماسک لگانے اورسینی ٹائزر کی ہدایات جاری ہوتی رہیں اور اس وائرس کے پھیلنے کے سچ اور جھوٹ کے متعلق مختلف افواہیں پھیلائی جاتی رہیں، موت وحیات کی اس گرم بازاری میں بہت سے لوگ ایسے بھی سامنے آئے جو اس وباء یا اس کی افواہ کو کیش کرکے اپنے جیبیں بھرنے لگے، تعلیمی ادارے بند کردینے سے بچوں کا مستقبل تاریک ہونے لگا، سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر کے بند ہونے سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا، لوگ گھروں میں مقید ہوکر رہ گئے، رمضان المبارک کا پورا مہینہ لوگ اس انداز سے مساجد کا رخ نہ کر سکے جس انداز سے وہ ہر سال مساجد جاکر نماز پنجگانہ کے علاوہ تراویح، ختم القران اور شبینہ کی محفلیں سجاتے تھے، رمضان گزرا، عید آئی، سرکار کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان ہوا اور لوگ عید کی خریداری کیلئے یوں گھروں سے نکلے جیسے بند ٹوٹنے سے پانی نکلتا ہے، شہروں کی گلیوں اور بازاروں میں لوگوں کا سیلاب اُمڈ آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے لوگوں نے اس خوف کا جوا اُتار پھینکا جس میںگھٹ گھٹ کر مرتے رہنے کی تلقین کی جاتی رہی تھی، کرونا سے ڈرنا نہیں اس سے لڑنا ہے، ایک طرف تو اس قسم کی بڑکیں ماری جاتی رہیں اور دوسری طرف حکومتی اداروں کی وجود پر کپکپی طاری رہی جس کے زیراثرصرف پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر کے ممالک کا نظام زندگی کو مفلوج ہوکر رہ گیا، معیشت کی تباہی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دفاتر میں کام کی رفتار زیرو تھی جبکہ دفاتر کا عملہ گھر بیٹھے اپنی تنخواہیں اور مراعات موصول کرر ہا تھا، عدالتیں بند ہونے کی وجہ سے زیرالتوا کیس جمود کا شکار ہوکر رہ گئے، قیدیوں اور ملاقاتیوں کا رابطہ منقطع ہوگیا اور بے گناہ قیدی اپنے مستقبل سے مایوس ہوکر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرنے لگے، ٹریفک جام، راستے مسدود، گلیاں اور بازار ویران، دفاتر تک رسائی مشکل ہی نہیں ناممکن اور اگر دفاتر تک پہنچ بھی گئے تو وہاں پڑے تالے یا افسروں اور اہلکاروں کا اپنی سیٹوں پر موجود نہ ہونا ان لوگوں کی اذیت میں اضافہ کرنے لگا جن کا آئے روز اپنے ذاتی یا گروہی کام کے سلسلہ میں دفاتر کو رجوع کرنا ہوتا ہے،
کوئی اُمید بر نہیں آتی، کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی، اب کسی بات پر نہیں آتی
جیسی کیفیت نے ہر دل میں مایوسی کے پہرے بٹھا دئیے تھے، ایسے میں ”کے پی میں سرکاری دفاتر کھل گئے” جیسی خبر کو ہم کیوں نہ مژدہ جاں فضا کا نام دیتے، جب ہم یہ سطور ضبط تحریر میں لارہے تھے تو ہمیں مکمل لاک ڈاؤن کی کسی حد تک ختم ہونے کی خبر ملی جس میں کہا گیا کہ جمعہ کو دکانیں کھلیں گی، سیاحت پر پابندی ختم،یہ سب جان کر ہمیں یوں لگا جیسے ہم سے چھن جانے والی زندگی واپس لوٹا دی گئی ہو اور ہمارے اندر سے کوئی پکار پکار کر کہنے لگا کہ ”اسے کہتے ہیں کرونا سے ڈرنا نہیں، اس سے لڑنا ہے” اور اس سے لڑائی کے دوران ہم نے یہ بات یاد رکھنی ہے کہ ”احتیاط علاج سے بہتر ہے”
یہ احتیاط عشق پر لازم سدا رہے
ہر چند قربتیں ہوں مگر فاصلہ رہے

مزید پڑھیں:  موت کا کنواں