5 94

پن بجلی منافع’ ضم اضلاع، انتظار کب تک

ماضی کی ہر حکومت نے، ہر سیاستدان نے ہر دور میں صوبہ خیبر پختونخوا کے اس دیرینہ مطالبہ پر بارہا آواز اُٹھائی، صوبہ میں حکومت عوامی نیشنل پارٹی کی ہو یا پاکستان پیپلز پارٹی کی، مسلم لیگ ن، ق براجمان ہو یا متحدہ مجلس عمل کے درویش برسر اقتدار ہوں ہر ایک جماعت اور ان کی حکومت پن بجلی کے خالص منافع میں سے صوبہ خیبر پختونخوا کے حصہ کے حصول کیلئے کوشاں رہی۔ ہر بار ہر صوبائی حکومت نے وفاقی حکومت سے اس مطالبہ کو دہرایا، کبھی اس مطالبہ کو تو سراسر مسترد کر دیا گیا اور کبھی وفاق وپختونخوا میں ایک ہی سیاسی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود اس مطالبہ کو سردخانے کی نظر کیا گیا، اس ساری جدوجہد میں اس مطالبہ کو، اس حق کو کبھی تو سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا جاتا ہے اور کبھی مطالبہ کو صحیح تو مانتے ہیں مگر اس پسماندہ صوبہ کا حق کبھی بھی اسے دیا نہیں گیا، اس ساری حق تلفی اور زیادتی میں جہاں دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے کردار ادا کیا وہاں ہمارے اپنوں نے بھی بھرپور کردار ادا کرتے ہوئے کبھی بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا کہ یہ حق اس صوبہ کو نہ مل سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت سے اُمیدیں تو ہیں کہ صوبائی اور وفاقی حکومت اپنے تن من دھن سے دن رات ایک کرے کہ کسی طور گلشن میں اُجالا ہو جائے۔
تربیلا ڈیم پاکستان کیلئے پن بجلی کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، اسی طرح ورسک ڈیم بھی ایریگیشن کیساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار بھی دے رہا ہے۔ یہ دونوں ڈیم نہ صرف ہمارے صوبہ بلکہ پاکستان بھر کو بجلی فراہم کررہے ہیں، ان ڈیموں کی تعمیر کیلئے یہاں کے عوام نے اپنے گھر بار کی قربانی دی اور ان قربانیوں کے عوض انہیں دردر کی ٹھوکریں نصیب ہوئیں اور ”متاثرین” کے لقب سے نوازے گئے، گزشتہ ہر حکومت نے ان متاثرین کے حقوق کے حصول کے نام پر اپنی سیاست تو چمکائی مگر حقیقی معنوں میں کوئی عملی قدم نہیں اُٹھایا، مرکزی حکومت نے اپنی ہٹ دھرمیاں کیں اور صوبائی حکومتوں نے اپنی کمزوریاں دکھائیں، اس طرح متاثرین چاہے تربیلا ڈیم کے ہوں یا ورسک ڈیم کے دونوں کے حقوق ہر دور میں ہر حکومت نے غصب کئے، اس کیساتھ ساتھ ہر وفاقی حکومت نے صوبے کو ان ڈیموں کی رائیلٹی میں سے عشرعشیر بھی نہیں دیا۔ اسی ادھیڑ بن میں مالاکنڈIII پن بجلی پراجیکٹ بھی تکمیل کے مراحل سے گزر کر ملک کی ترقی میں صوبہ خیبر پختونخوا کی طرف سے ایک اور خوشگوار اضافہ ہے۔
اس پروجیکٹ سے سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کی خالص آمدن ہوگی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس سے بیس ہزار ایکڑ اراضی سیراب ہوگی، جس سے ایک طرف بجلی کے بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی تو دوسری طرف صوبہ کی زمین بھی زرخیز وسرسبز ہوگی، اس پروجیکٹ سے مالاکنڈ انڈسٹریل سٹیٹ کو بھی بجلی فراہم کی جائے گی اور یوں اس منصوبہ سے بلواسطہ اور بلاواسطہ سینکڑوں نوجوانوں کے روزگار کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔ اسی طرح چند مزید پروجیکٹس سے جن میں پہور ہائی لیول کینال سے 12میگاواٹ بجلی ملے گی، الائی خوڈ سے 121میگاواٹ، دوبیرخوڈ سے 130میگاواٹ، خان خوڈ سے 72میگاواٹ بجلی حاصل کی جاسکے گی۔ یہ ایک ترقی یافتہ اور خوشحال صوبہ کی ابتداء ہے، ہم اتنی تعمیر کرنے کے خواہاں ہیں کہ اس صوبہ کا ہر چہرہ ہنستا مسکراتا نظر آئے، عام آدمی امن اور خوشی سے زندگی گزارنے کا خواہاں ہے مگر اس ساری سیاسی کشمکش میں نقصان کسی اور کا نہیں اس چھوٹے صوبے کا اور اس کے غریب عوام کا ہوا ہے، اس رقم کے اب دیر سے ملنے سے ہمارا صوبہ چند ماہ کیلئے پھر کسمپرسی کی حالت میں رہے گا، اس رقم سے صوبہ میں کئی بڑے ہسپتال بنا کر صوبائی دارالحکومت کے بڑے ہسپتالوں کا بوجھ کم کیا جاسکتا تھا، سکول وکالج بنا کر صوبہ کی تعلیمی پسماندگی کو کافی حد تک دور کیا جا سکتا تھا، صوبہ بھر کی سڑکوں کی مرمت اور نئی سڑکیں بناکر کھیت سے منڈی تک کا سفر آسان کیا جاسکتا تھا، روزگار کے نئے مواقع پیدا کئے جاسکتے تھے۔ ہمارا صوبہ خیبر پختونخوا اس رائیلٹی کا نہ صرف حقدار ہے بلکہ اس وقت صوبے کو بہت ضرورت مند بھی ہے کیونکہ فاٹا کے نئے اضلاع اس صوبہ میں ضم ہونے سے وسائل کی بہت ضرورت ہے، ان نئے اضلاع میں بنیادی ضروریات کی بہت کمی ہے۔ سرکاری سطح کے سکول کالجز کی اشد ضرورت ہے، صحت کے معیار کو بڑھانے، سڑکوں اور انفراسٹرکچر کیلئے بھی کثیر رقم درکار ہے۔ اگر وقت پر رائلٹی کی رقم مناسب طریقے سے نہ بانٹی جاسکی توبالخصوص ہمارا صوبہ خیبر پختونخوا بہت پیچھے رہ جائے گا۔ ترقیاتی کام بہت کم ہو جائیں گے، تعلیم کے معیار کو بڑھانے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔ ماضی میں اے جی این قاضی فارمولا سے صوبے ابھی تک ناراض ہیں اور اب گزشتہ چند ماہ سے قومی مفادات کونسل کا اجلاس اور اس مسئلہ پر بات ہونا باقی ہے کیونکہ آج کل تحریک انصاف کی وفاقی حکومت میں کرونا کے مسئلہ پر بھی یہ کونسل صوبوں کو متفق نہیں کر پارہے حالانکہ صوبہ خیبر پختونخوا اور صوبہ پنجاب میں ان کی اپنی حکومت ہے اور صوبہ بلوچستان میں ان کے اتحادی کی حکومت ہے، صرف سندھ میں ان کے سیاسی حریف کی حکومت ہے مگر سندھ تو خفہ ہے ہی باقی تین صوبے بھی کچھ خوش نظر نہیں آرہے اور اگر اب اتفاق رائے نہ بن سکا تو یہ نقصان بھی اگلے کئی سالوں تک پورا نہیں کیا جاسکے گا۔ تحریک انصاف کی حکومت کو اس وقت مرکز کیساتھ ساتھ اپنے صوبائی حکومتوں پر بھی توجہ دینی ہوگی۔

مزید پڑھیں:  امیر زادوں سے دلی کے مت ملا کر میر