editorial 1 8

تباہی کے دہانے پر

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے عوام کو کرونا وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں میں اضافے کی خبر دینے کے ساتھ ہی اس کے پھیلاو کی روک تھام کے لیے لگائی جانے والی تمام تر پابندیاں ہٹانے کا اقدام نہایت عجیب اور حیران کن تھا۔ ان کا حالیہ بیان اس لاپرواہی اور ناقص لائحہ عمل کا عکاس ہے جو وفاقی حکومت نے ہر دن زور پکڑتی اس بیماری کے تدارک کے لیے اپنا رکھا ہے۔ نقل و حمل پر لگائے جانے والی تقریباً تمام ہی پابندیوں کے اُٹھائے جانے کے بعد عوام کو مکمل طور پر ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے ۔ ریاست نے عوام کے تحفظ کی ذمہ داری سے ہاتھ اُٹھا لیے ہیں۔ وزیراعظم اب بھی اپنے اسی بیان پر قائم ہیں کہ وہ شروع سے ہی تالہ بندی کے حق میں نہیں تھے اوریہ کہ کووڈ 19ان کے مطابق ایک معمولی زکام کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زمینی حقائق کو ماننے سے انکاری یہ حکومت جادو ٹونے کے ذریعے اس آفت سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کیے بیٹھی ہے۔مئی کو پیش کردہ اس رپورٹ میں وائرس کا مزید پھیلائو روکنے کے لیے عید سے تقریباً چار ہفتے قبل سے ہی سخت لاک ڈاون کرنے کی سفارش کی گئی تھی۔ ماہرین وبائی امراض اورڈاکٹر حضرات بھی بہت عرصہ سے اس ممکنہ تباہی کے بابت خبردار کرتے اور اس سے نمٹنے کے لیے سخت اور مؤثر اقدامات کا مطالبہ کرتے نظر آرہے تھے۔مگرحفاظتی اقدامات تو کجا، حکومت نے الٹا کاروبار کھولنے اور پابندیوں کو نرم کرناشروع کر دیا جس کے بعد بازاروں کے عوام کا جم غفیر اور سڑکوں کو بلاک کرتے گاڑیوں کے ہجوم قانون کا منہ چڑاتے نظر آئے۔ یہ وائرس کے پھیلاو کے لیے موزوں ترین صورتحال تھی۔ عید سے صرف چند دن قبل عدالت عظمیٰ کی جانب سے شاپنگ مالز بھی کھولے جانے کے احکامات اس صورتحال کو مزید خطرناک کرنے کا سبب بنے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر موجودگی میں ایس اوپیز اور حکومتی ہدایات کا سرے سے کوئی خیال ہی نہیں رکھا گیا۔ صرف کاروباری مراکز ہی نہیں ، عیدکی نماز اور مزارات کو بھی کھولنے کی اجازت دے دی گئی۔ اب ان اقدامات کا ملکی معیشت اور غریب عوام کی بھلائی میں کیا کردار ادا ہو سکتا تھا، یہ بات اب تک واضح نہیں ہو سکی۔ لاک ڈاون کے مکمل خاتمے اورحکومت کے اس لاپرواہی سے بھرپور رویے کے بعد کرونا کیسز اور اس سے ہونے والی اموات میں ہوش ربا اضافہ متوقع تھا۔ محکمہ صحت پنجاب کے مطابق یہ صورتحال ابھی مزید ابتری کی جانب جاسکتی ہے۔ وزیر اعظم کی جانب سے لاک ڈاون کے خاتمے کے اعلان سے محض دو دن قبل پاکستان میں کرونا سے متاثرہ کیسز اور اموات کے حوالے سے بدترین دن گزرا۔ اس دن تین ہزار سے زائد کیس اور92 ہلاکتوں کی اطلاعات آئیں جن میں ڈاکٹر بھی شامل تھے۔البتہ اس تقریر میں اس حوالے سے وزیر اعظم نے ایک لفظ بھی نہ کہا اور حسب معمول لاک ڈاون کرنے کے اپنی ہی حکومت کے فیصلے پر تنقید کرتے رہے۔ واضح ہے کہ یہ صورتحال حکومت کی ناقص پالیسیوں کے سبب اس قدر گھمبیر ہوئی اور اب وزیر اعظم ملک میں سیاحت بھی کھولنے کے خواہاں ہیں حالانکہ خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان کی حکومتوں نے اس حوالے سے اپنے شدید تحفظات سے آگاہ کر دیا ہے۔ ان تمام فیصلوں اور اقدامات سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ ہماری حکومت کی نظر میں عوام کی جانیں کوئی بہت زیادہ وقعت نہیں رکھتیں۔ پاکستان شاید وہ واحد ملک ہے جس نے اس بیماری کے جوبن پر سب کچھ کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جنوبی ایشیاء کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن کی جاری کردہ رپورٹ میں وزیر اعظم کے اس خیال کو یکسر رد کر دیا گیا ہے لاک ڈاون سے بیماری کے تدارک میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ بھارت اور بنگلا دیش کی جانب سے کیے گئے سخت اقدامات کی بدولت اب وہاں پر آبادی کے تناسب کے لحاظ سے پاکستان سے کم کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں پچھلے دو ہفتوں کے دوران کرونا کیسز میں شدید اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ سری لنکا تک اپنے بروقت اقدامات کی بدولت کرونا کیسز میں قابو پانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ ان تمام ممالک میں بھی ہماری طرح نوجوان آبادی کثرت میں پائی جاتی ہے جس سے ان کے کرونا سے متاثر ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے اور یہ اعداد و شمار کے مطابق لاک ڈاون ختم کرنے میں ہم سے بہتر پویشن میں ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اب تک احتیاطی تدابیر اپنانا ترک نہیں کیں۔ حکومتی سطح پر ایک واضح پالیسی نہ ہونے کے سبب ہم اب تک وبا پر قابو پا سکے ہیں اور نہ ہیں معیشت کی بحالی کا کوئی راستہ نکال پائے ہیں۔ اور اس سب میں سب سے مضحکہ خیز چندوزراء کے وہ بیانات ہیں جس میں انہوں نے یہ دعوہ کیا ہے کہ پوری دنیا اب ہمارے وزیر اعظم کا ”وژن” اپنا رہی ہے۔ وہ اب تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں اس بیماری کے پھیلاو کا نتیجہ صحت عامہ کی تباہ کن صورتحال کے ساتھ معیشت کی بحالی میں تاخیر کی صورت نکلے گا۔ ہماری حکومت اس بیانیے پر مصر ہے کہ لاک ڈاوں سے غریب اور دہاڑی دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا مگر وہ نا جانے یہ کیوں نہیں سمجھ پا رہے کہ بیماری کا اس قدر پھیلاوبھی اسی ورکنگ کلاس کے لیے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوگا۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق یہ بات واضح ہو چکی ہیں کہ غربا کی بستیوں اور تنگ اور گنجان آباد علاقوں میں بیماری کا پھیلائو کئی گنا تیز ہے ۔ بروقت اور مؤثر اقدامات سے اس صورتحال پر قابو پایا جاسکتا تھا۔ اگر حکومت شروع کے دومہینوں میں لاک ڈاون کے حوالے سے ایک سنجیدہ لائحہ عمل اپنا لیتی تو اس وقت صورتحال کافی بہتر ہو چکی ہوتی۔ لاک داون میں اس جلدی اور بے ضابطگی نے ملک کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ اس نقصان دہ لائحہ عمل پر حکومت کو فوری نظر ثانی کرنا ہوگی تاکہ صورتحال کو مکمل طور پر ہاتھوں سے نکلنے سے بچایا جا سکے۔ (بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  دہشت گردی میں اضافہ