p613 22

آٹابحران کے مستقل حل کی ضرورت

خیبر پختونخوا کابینہ نے پنجاب حکومت کی جانب سے صوبے کو گندم اور آٹے کی ترسیل پر عائد پابندی کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس اقدام کو آئین کی خلاف ورزی قرار دیا اور وفاق سے کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ کابینہ نے محکمہ خوراک کو بھی ہدایت دی کہ وہ پاسکو اور امپورٹ کے آپشنز بھی کھلے رکھے کیونکہ ہم نے عوام کو آٹے کی ترسیل ہر صورت یقینی بنانی ہے۔ وزیراعلیٰ نے خصوصی طور پر محکمہ خوراک کو ہدایت کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا فعال کردار ادا کریں اور مقامی طور پر گندم کی خریداری کیلئے ضلعی انتظامیہ کے تعاون سے بھرپور کوششیں جاری رکھیں۔ خیبرپختونخوا،وفاق اور پنجاب میں ایک ہی جماعت کی حکمرانی کے باوجود صوبے میں پنجاب حکومت کی جانب سے عائد کردہ قدغن نہ تو سیاسی فیصلہ ہے اور نہ ہی اسے کوئی دوسرا نام دیا جا سکتا ہے سوائے اس کے کہ اس قسم کی صورتحال سے عوام کا حکومت سے اعتبار اُٹھ جائے گا اور یہ صورتحال دو صوبوں کے عوام کے درمیان نفرت کی بنیاد ثابت ہوسکتا ہے۔ ایک طے شدہ طریقہ کار کے مطابق پنجاب سے گندم اور آٹا کی مقررہ کوٹہ کے مطابق خیبرپختونخوا میں آمدوخریداری میں خلل ڈالنے کی کسی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے مگر وقتاً فوقتاً پنجاب حکومت اس میں مداخلت کرتی ہے جس کے نتیجے میں خیبرپختونخوا میں آٹا کی قلت کی نوبت آئے نہ آئے مگر قیمتوں میں اضافہ ضرور ہوتا ہے۔ پنجاب حکومت کے اس فیصلے میں بیوروکریسی کس حد تک ملوث ہے اور حکومت پنجاب کا فیصلہ کیا ہوتا ہے اس سے قطع نظر اولاًیہ ایک غیرآئینی اقدام ہے اور اخلاقی طور پر بھی اس کا کوئی جواز نہیں، دوم یہ کہ پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ کہیں چینی سکینڈل کی طرح غفلت وملی بھگت کا نتیجہ تو نہیں اور مافیا براہ راست اور بالواسطہ طور پر اس قسم کے فیصلے کرانے میں ملوث تو نہیں جس کا فائدہ تو مافیا اُٹھاتی ہے اور بد نامی صوبائی حکومت کے حصے میں آتی ہے۔ اس اقدام سے فوائد مافیا سمیٹتی ہے اور وہی اس کی مستفید ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے مختلف طریقوں پر غور کرنا اور صوبے میں آٹا وگندم کی قلت دور کرنے کیلئے مختلف ذرائع سے گندم کی خریداری ایک ایسا مستقل انتظام ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں صوبے کی حکومت اور عوام کو باربار دوسروں کی محتاجی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔صوبوں کو ایک مقررہ حد تک گندم کی براہ راست خریداری کی اجازت ہونی چاہئے اور کھلی مارکیٹ میں گندم پراجارہ داری کی کسی کو اجازت نہ ہو تو خیبرپختونخوا کی حکومت اپنی ضرورت کا سٹاک جمع کر کے اس قسم کے حالات پیدا ہونے پر مارکیٹ میں گندم کی فراہمی کے ذریعے طلب ورسد کو متوازن رکھ سکتی ہے تاکہ آٹا کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہو۔صوبائی حکومت کو آٹا کی افغانستان سمگلنگ کی روک تھام میں سنجیدگی اور سختی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔افغانستان آٹا سمگلنگ کے نہایت منافع بخش کاروبار پر قد غن لگے اور صرف منظورشدہ کوٹہ ہی برآمد کرنے کی اجازت دی جائے تو صوبے کی کھلی مارکیٹ میں آٹا کی قلت پیدا نہ ہوگی۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کو پنجاب کے وزیراعلیٰ سے براہ راست رابطہ کر کے صوبے کو گندم وآٹا کی ترسیل پر پابندی ہٹانے کی درخواست کرنی چاہئے، نیز اس مسئلے کے مستقل حل کیلئے وزیراعظم سے بھی رابطہ کیا جانا چاہئے۔محکمہ خوراک پنجاب اور محکمہ خوراک خیبرپختونخوا کے کردار وعمل کا جائزہ لینے اورخامیوں وخرابیوں، ملی بھگت اور غلط فیصلوں کے تدارک اور آٹا وگندم کی ترسیل ذخیرہ وسپلائی کا نظام متوازن اور قانون کے مطابق بنانے کی ضرورت ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ فوری اقدامات کے ذریعے آٹا کی قلت وبحران کا خاتمہ کر کے قیمتوں کو اعتدال پر لایا جائے۔

مزید پڑھیں:  روٹی کی قیمت دا گز دا میدان