5 95

بوالعزیزی سے جارج فلوئیڈ تک

امریکہ میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں قتل ہونے والے سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ امریکہ کی حکومت اور نظام کیلئے تیونس کے محمد البو العزیزی بنتے جا رہے ہیں۔ بوالعزیزی گلیوں میں آوازیں لگا کر سبزی فروٹ بیچنے والے انسان تھے جس نے پولیس اہلکاروں کی طرف اپنی ریڑھی اُلٹانے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کیخلاف خودسوزی کی تھی۔ یہ تیونس کے مطلق العنان حکمران زین العابدین بن علی کے طویل اقتدار کے خاتمے کیلئے بارش کا پہلا قطرہ ہی ثابت نہیں ہوا بلکہ اس کا نتیجہ ایک عرب دنیا میں اُٹھنے والی ایک ایسی لہر کی صورت میں برآمد ہوا تھا جس نے عرب اور افریقہ کے مردان آہن کہلانے والے شخصی حکمرانوں حسنی مبارک، معمر قذافی کے تخت وتاج کو بہا دیا تھا۔ امریکی میڈیا نے اس لہر کو ”عرب سپرنگ” کا نام دیا تھا اور اسے ان ملکوں میں جمہوریت اور شہری آزادیوں کے ایک نئے دور کا آغاز اور صبح کا طلوع قرار دیکر بھرپور سرپرستی کی تھی۔ اس لہر کو سوشل میڈیا کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ٹویٹر، فیس بک موبائل وڈیو کلپس نے اس لہر کو مقبول بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جارج فلوئیڈ کی زندگی کی آخری کہانی آخری سین آٹھ منٹ پر محیط ہے اور کیمروں نے اس منظر کو محفوظ کر لیا ہے۔ جب ایک سیاہ فام پولیس اہلکار نے جارج کو زمین پر اوندھے منہ گرایا ہے اور وہ اس کے گردن پر بیٹھ کر دباؤ بڑھا رہا ہے۔ جارج کراہ رہا ہے مجھے سانس نہیں آرہی مگر پولیس اہلکار اس کی گردن پر دباؤ بڑھا رہا ہے، یہاں تک کہ وہ آخری ہچکی لیتا ہے اور یہی آخری ہچکی اس کی خلاصی کا سامان بنتی ہے۔ جارج فلوئیڈ کی یہ آٹھ منٹ کی وڈیو کسی بے حس اور ناخواندہ معاشرے میں عام ہوتی تو وہاں بھی جذبات بھڑک اُٹھے ہوتے۔ امریکہ کے لوگوں کی اکثریت عام زندگی میں شہری آزادیوں اور انسانیت کی تکریم پر یقین رکھتی ہے اس لئے جارج کی بے بسی کے عالم میں موت نے انہیں منقا زیرپا بنا دیا ہے۔ امریکی عوام کو یہ احساس ہوا کہ یہ وہ ریاست اور اس کی پولیس ہے جو عوام کے ٹیکسوں سے وصولی کرتی ہے اور اس کا مقصد عوام کے جان ومال کا تحفظ ہوتا ہے۔ اس احساس نے جارج کی موت پر امریکیوں کو سراپا احتجاج بنا دیا ہے۔ اس احتجاج میں کالے اور گورے سب شریک ہیں یہ اس معاشرے کی زندہ ضمیری ہے کہ سفید فام لوگ محض نسل پرستی کا شکار ہو کر پولیس اہلکار کی حمایت میں گھروں میں دبکے ہوئے نہیں بلکہ وہ مظاہروں میں پیش پیش ہیں۔ رنگ ونسل سے بالاتر ہو کر امریکی اس کی تصویروں کے آگے پھولوں کے ڈھیر لگا رہے ہیں۔ امریکیوں کے مظاہرے کئی ریاستوں تک پھیل گئے ہیں، ہزاروں افراد اس واقعے کیخلاف سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں۔ پولیس پر پتھر اور بوتلیں پھینکی جا رہی ہیں، پولیس کی گاڑیاں نذرآتش کی جا رہی ہیں۔ وائس آف امریکہ نے اسے1966 میں ویت نام جنگ کی توسیع کیخلاف امریکیوں کے احتجاج سے تشبیہہ دی ہے۔ ویت نام جنگ کیخلاف عوامی غیض وغضب نے امریکی انتظامیہ کو لاحاصل مشق سے الگ ہونے پر مجبور کیا تھا۔ آج امریکہ میں دکھائی دینے والے یہ وہ مناظر ہیں جو تیسری دنیا کا مقدر بنا دئیے گئے تھے۔ جہاں غربت افلاس، ناخواندگی، معاشرتی اور ریاستی جبر کا شکار عوام تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہر شے کو خس وخاشاک کی مانند بہا ڈالنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ امریکہ کے شہری احتجاج کے دوران کرفیو سے آشنا ہو رہے ہیں۔ پولیس اور فوج گشت کر رہی ہے اور عوام کو گھروں سے نکل کر کھلے مقامات پر مجتمع ہونے کی اجازت نہیں۔ کورونا نے امریکیوں کو لاک ڈاؤن کی اصطلاح کے معانی اور مفاہیم سمجھا دئیے تھے تو جارج فلوئیڈ کا قتل انہیں کرفیو، پکڑ دھکڑ، ہتھکڑیوں، زنجیروں، آنسو گیس اور لاٹھی ڈنڈوں سے آشنا کر رہا ہے۔ مظاہرین اس قدر بپھر ے ہوئے ہیں کہ وائٹ ہاؤس کی طرف بار بار مارچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مظاہرین کے ارادے بھانپ کر پہلے ہی انہیں کہا تھا کہ وائٹ ہاؤس کی طرف بڑھنے والے جان لیں ان کا سامنا خونخوار کتوں اور نشانہ باز اہلکاروں سے پڑ سکتا ہے۔ جھوم کے اُٹھنے والے طوفان دھمکیوں سے نہیں رکتے نہیں۔ مظاہرین اپنے عزم وارادے سے باز تو نہیں آئے مگر صدر ٹرمپ دھمکی دینے کے بعد مظاہرین کے خوف سے وائٹ ہاؤس کے زیرزمین بنکر میں منتقل ہو گئے ہیں۔ یہ اس طرح کے انقلابات ہیں جن کو برپا کرنے کیلئے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے مشہور ہوا کرتی تھی۔ امریکی میڈیا نمک مرچ لگا کر احتجاج کی کہانیاں بیان کرتا۔ حکمران اپنے بچاؤ کیلئے مظاہرین پر طاقت کا استعمال کرتے تو یہی میڈیا شہری آزادیوں اور اظہاررائے کے حق کا ڈھول پیٹنا شروع کرتا اور یہ روئیے صرف دنیا میں ان مقامات کیلئے مخصوص ہوتے جہاں پوشیدہ امریکہ مفادات کا کھیل چل رہا ہوتا۔ اس کے سوا کسی دوسری جگہ آزادی اظہار اور شہری آزادیوں پر امریکہ کا ایک ہی رویہ ہوتا تھا ”ہماری بلا سے”۔ احتجاج جب پوری طرح دہک اُٹھتا تو اسے ایک خوبصورت نام دیا جاتا اور حکمران کا تختہ اُلٹ جاتا تو اسے انقلاب کہا جاتا۔ عرب سپرنگ کے بعد تو حد ہوئی کہ عرب دنیا کے جس حصے میں یہ بغاوتیں کامیاب ہوئیں وہاں لیبیا کی طرح سول سٹرکچر بکھر کر رہ گیا اور خانہ جنگی نے مستقل ڈیرے ڈال دئیے۔ جہاں مصر کی طرح جمہوریت کا سورج طلوع ہوا، اسے بھی سال بعد ہی جبراً غروب کرکے ایک نئی آمریت کے قیام میں بالواسطہ مدد دی گئی۔ آج امریکہ تیونس، مصر، لیبیا کا منظر پیش کر رہا ہے اور یہ مکافات عمل ہے، امریکہ نے دنیا میں جو بویا ہے اب اسے کاٹنا پڑ رہا ہے۔

مزید پڑھیں:  بیرونی سرمایہ کاری ۔ مثبت پیشرفت