1 140

جدید غلامی کے شکنجے

امریکہ میں انسانوں کو 1865ء میں قانونی طور پر غلامی سے آزاد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ برازیل میں1888ء میں غلامی کو ممنوع قرار دیا گیا۔ نیپال نے1926ء میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا اور 1949ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دنیا بھر میں غلامی کی مکمل ممانعت کا اعلان کیا جس کے بعد اب دنیا میں غلامی کی کوئی صورت قانونی طور پر باقی نہیں رہی لیکن انسانوں کی جدید غلامی کی شکل باقی ہے اور مہذب ممالک میں انسانوں کو غلام بنا کر ان کیساتھ غیرانسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ امریکہ میں پولیس کی زیرحراست سیاہ فام جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد بظاہر پورا امریکہ فسادات کی لپیٹ میں ہے اور کہا جا رہا ہے کہ ایک انسان کی زندگی کی خاطر پورا امریکہ سراپا احتجاج ہے اس مؤقف سے دراصل یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ امریکہ میں انسانی جانوں کی قدر ہے جبکہ پورا سچ یہ ہے کہ آج کی جدید دنیا میں اب بھی سب سے زیادہ ناروا اور امتیازی سلوک امریکہ میں ہی روا رکھا جا رہا ہے۔ ذیل کی سطور انسانوں کی تذلیل کا سیاہ ترین باب ہیں۔سولہویں صدی کے انگلینڈ میں تجارت اور سرمایہ دارانہ نظام نے مزدوروں کی جگہ مشینیں نصب کردیں تو شہروں میں مزدوروں کے ہجوم بے مصرف گھومتے نظر آتے، یہ انتہائی غریب اور کسمپرسی میں تھے۔ وہ اس آوارگی میں بھکاری اور ”مجرم” بن گئے تھے چنانچہ ایلزبتھ حکومت میں چند قوانین منظور کئے گئے، جن کے تحت انہیں کڑی سزائیں دی جاتیں اور بڑی تعداد میں شمالی امریکہ جلاوطن کر دیا جاتا تھا۔ ان ”بدمعاشوں اور آوارگان” کی ایلزبتھن تعریف کچھ یوں تھی: وہ تمام افراد جو بھکاری ہوں، مچھیرے وغیرہ، جو اپنے نقصان کا رونا روتے رہتے ہوں، سارے بیروزگار افراد، راستوں پر کھیل تماشے دکھانے والے، سارے آوارگان جن کا کوئی باقاعدہ روزگار نہ ہو اور محصولات کی زد میں نہ آتے ہوں۔ ایسے افراد جہاں بھی بھیک مانگتے یا بے کار گھومتے نظر آتے، انہیں برہنہ کیا جاتا اور کوڑے برسائے جاتے، شہر سے بے دخل کر دیا جاتا یا ملک سے ہی (شمالی امریکہ کی نوآبادیوں کو) منتقل کر دیا جاتا تھا۔
سترہویں اور اٹھارہویں صدی میں جبری جلاوطنی یا وعدوں اور جھانسوں سے سارے غریب مزدوروں کو انگلینڈ سے صرف اس لئے دیس نکالا گیا تاکہ امراء مزے سے زندگی بسر کرسکیں۔ یہ سارے غریب نئی ریاست امریکہ جانا چاہتے تھے سو انہیں وہاں بھیج دیا گیا۔ یوں یہ غریب تاجروں، جہاز کے کپتانوں، اور آقاؤں کیلئے سستی مزدوری اور بیگار کا اہم ذریعہ بن گئے۔ مزدوری کے راضی نامہ پر دستخط کے بعد، جس میں تارکین وطن مزدوروں سے لکھوایا جاتا تھا کہ امریکہ تک کے سفری اخراجات کی ”کٹوتی” پانچ سے سات سال تک ایک آقا کیلئے مسلسل ”کام” کی صورت میں کی جائے گی۔ انہیں جہاز کی روانگی تک قید رکھا جاتا تھا، یہ یقینی بنایا جاتا تھا کہ وہ کسی طور فرار نہ ہوسکیں۔ سال1619ء میں ورجینیا ہاؤس آقف برجیسس بطور نمائندہ اسمبلی امریکہ منظر پر ابھری تھی (یہی سیاہ فام غلاموں کی تجارت کا بھی پہلا سال تھا)، اس نمائندہ اسمبلی نے ہی سب سے پہلے آقاؤں اور غلاموں کے درمیان جبری راضی نامہ کی سہولت اور اطلاق ممکن بنایا تھا۔ ان راضی ناموں میں کاغذات فریقین کو ”برابر” ظاہر کرتے تھے جبکہ حقیقت میں یہ جبری معاہدہ ہوتا تھا جس میں غلام کی زندگی آقا کو گروی رکھ دی جاتی تھی۔امریکہ میں اعلیٰ معیار زندگی اور خوش کن کہانیوں کیساتھ ساتھ تلخ تاریخی حقائق ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں، ایک غلام مزدور امریکہ سے خط لکھتا ہے ”جو یورپ میں گزربسر کر سکتا ہے اس کیلئے یہی بہتر ہے کہ وہیں رہے، یہاں امریکہ میں حالات بہت دگرگوں ہیں، ہر جگہ پریشانی اور ناداری ہے، یورپ کے مقابلے میں یہاں کے حالات زیادہ غیریقینی ہیں” امریکہ میں غلاموں پر تشدد اور کوڑے برسانا عام بات تھی، غلام عورتوں کی عصمت دری کی جاتی تھی۔ میری لینڈ کا عدالتی ریکارڈ بتاتا ہے کہ بہت سارے غلاموں نے خودکشی کرلی تھی۔ 1700ء تک ورجینیا میں پچاس امیر خاندانوں کی حکمرانی تھی، ان کی دولت پچاس ہزار پاؤنڈ کے لگ بھگ تھی (یہ اس زمانے کے اعتبار سے بہت خطیر رقم ہے) یہ سب سیاہ فام غلاموں اور سفید فام مزدوروں کے خون پسینے کی کمائی تھی۔ بڑے بڑے باغات اور چراگاہیں ان امراء کی ملکیت میں تھیں، جان لاک کو امریکہ کے نظام اور بانیان کا فلسفیانہ باپ سمجھا جاتا ہے۔ جان لاک کے آئین نے ایک جاگیردارانہ نوعیت کی اشرافیہ قائم کی، جس کے تحت آٹھ انگریز نواب نوآبادی کی چالیس فیصد اراضی کے مالک تھے اور صرف وہی گورنر بھی لگائے جاسکتے تھے۔ غریب مزارع ذاتی زمین کا صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ یوں قبل ازانقلاب کا سارا زمانہ جاگیرداروں اورکسان مزدوروں کے مابین نفرت اور بغاوت کی کوششوں میں گزرا۔ غلاموں کے استحصال کے حوالے سے نیویارک کی اشرافیہ سب سے نمایاں نظر آتی ہے۔ سونے کے فریم میں لگے شیشوں کے پیچھے سے جھانکتے، چاندی کے برتنوں میں دعوتیں اُڑاتے، مہنگے اور کندہ نقش ونگار سے مزین فرنیچر استعمال کرتے، سیاہ فام غلاموں کے درمیان چمکتے دمکتے یہاں کے اشرافیہ کی شان ہی نرالی تھی۔ نوآبادیاتی دور میں نیویارک ایک ”جاگیردارانہ بادشاہت” کی مانند تھا۔ دریائے ہڈسن کے کنارے ڈچ نوابوں نے اپنی راجدھانی قائم کر رکھی تھی، یہاں بڑی بڑی جاگیریں تھیں، جہاں مزارعوں اور غلاموں کی زندگیوں پر نوابوں کا مکمل اختیار مستحکم تھا۔ آج امریکہ میں فسادات کی آڑ میں لوٹ مار کا بازار گرم ہے کیا کسی مسلم ملک میں اس طرح کی لوٹ مار کی مثال تلاش کی جا سکتی ہے؟ یہ امریکی قوم کے مہذب چہرے سے نقاب اُتارنے کیلئے کافی ہے۔

مزید پڑھیں:  ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی حکمرانی