logo 21

ابتر صورتحال میں صوبائی بجٹ کی تیاری

خیبر پختونخوا حکومت کو رواں مالی سال وفاق سے 90ارب روپے نہ ملنے، صوبائی آمدن کے مقابلے میں اخراجات کا دس ارب روپے زیادہ ہونے کے باعث پورے سو ارب روپے کا خسارہ شاید صوبائی حکومت کی تاریخ کا سب سے بڑا مالی خسارہ ہے جس کے آئندہ مالی سال کے بجٹ ہی پر منفی اثرات مرتب نہیں ہوں گے بلکہ صوبے کی تعمیر وترقی کا سلسلہ برسوں متاثر رہنے کاخدشہ ہے۔ صوبائی وزیر خزانہ کایہ دعویٰ مضحکہ خیز ہے کہ پنشن اصلاحات کے تحت 20ارب روپے کی بچت ہوئی، حقیقت یہ ہے کہ عدالت سے ساٹھ سال کی عمر کے افراد کو پنشن دینے کے احکامات اگر سپریم کورٹ سے بھی برقرار رکھے گئے تو صوبائی خزانہ پر 20ارب روپے کا فی الفور اور ایک دم بوجھ پڑے گا بلکہ مسلسل تاخیر و التواء میں رکھے گئے ماہانہ و سہ ماہی ششماہی و سالانہ پنشن کیسوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ کے باعث خزانے پر اس سے بھی زیادہ بار پڑے گا، اس طرح سے اسے بچت کے زمرے میں شمار کرنے کی بجائے اگر جو اقرار دیاجائے تو غلط نہ ہوگا۔ بہرحال اس صورتحال سے قطع نظر ایک ایسے دور حکومت میں جب صوبے اور وفاق میں ایک ایسے جماعت کی حکومت ہے جس کی بنیاد خیبر پختونخوامیں رکھی گئی اور جو جماعت انصاف کی دعویدار اور حقدار کا حامی ہونے کاداعی ہے اس دور حکومت میں دوسرے مالی سال کے دوران بھی خیبر پختونخوا کو اس کے جائز اور واجب الادا حق کے 90ارب روپے سے محروم رکھا گیا۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک میں کورونا کی صورتحال کے باعث معاشی و اقتصادی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں کاروباری طبقہ حکومت سے امداد لینے پر مجبور ہوگیا ہے۔ بجٹ میں نئے ٹیکس لگانے کی گنجائش ہی نہیں جب معمول کے دنوں میں مالی سال کا اختتام اہداف میں ناکامی کی صورت میں نکلتا رہاہے ایسے میں امسال ٹیکس لگانے کاخیال ہی احمقانہ متصور ہوگا لیکن اس کے باوجود اس امر کا یقین کم ہی ہے کہ حکومت لفظوں کے ہیر پھیر اور شعبدہ بازیوں سے کام نہ لے اور بالکل ہی ٹیکس فری بجٹ پیش کرے۔ ماضی میں ٹیکس فری بجٹ کے دعوئوں کے باوجود بالواسطہ طریقوں سے ٹیکس عائد کرنے اور ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوتا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں شاید ہی کوئی شعبہ پیشہ و خدمات ایسے ہوں جس میں ٹیکس لگانے کی گنجائش ہو۔ اس وقت کے معاشی حالات میں ٹیکس نہ لگانا کوئی رعایت نہیں اصل رعایت ٹیکسوں میں چھوٹ کا ہے نئے ٹیکس نہ لگانے کامطلب عائد شدہ ٹیکسوں ہی کی وصولی پر اکتفاء ہے جس کی کاروباری برادری متحمل نہیں ہوسکتی۔ بہرحال جب تک بجٹ کی بلی تھیلی سے باہرنہیں آتی اور ماہرین اسے سخت حالات میں مناسب بجٹ تسلیم نہیں کرتے، وزیر خزانہ کے دعوئوں پر صاد نہیںکیاجاسکتا۔ کورونا وباء بارے ملنے والی امدادی رقوم کے حسابات اور مصارف کی تفصیلات سے عوام کو آگاہی دینے کے بعد ہی اس مد میں مزید وسائل مختص ہونی چاہئے، فی الوقت اس امر کی سمجھ نہیں آتی کہ اخراجات کروڑوںمیں اور نتیجہ صفر والی صورتحال ہے۔ وفاقی حکومت نے این ایف سی ایوارڈ کو مسلسل التواء میں رکھ کر اور اجلاس کے انعقاد کی بجائے کمیٹی میں متنازعہ اراکین کی شرکت اور اس کے ادھورے ہونے کی پیشگی انتظامات کرتے ہوئے اس مرتبہ بھی صوبوں کو محروم رکھنے کاپورا انتظام کر رکھا ہے۔ خیبر پختونخوا کو قبائلی اضلاع کے انضمام پر این ایف سی ایوارڈ کا تین فیصد اضافی حصہ دینے کا جو وعدہ گزشتہ حکومت نے کیا تھا اس کی عدم تکمیل صوبے کے خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہے، پہلے سے بیروزگاری کی شرح میں اضافہ والے صوبے میں سابق قبائلی علاقہ جات( فاٹا) کے پراجیکٹ ملازمین کو فنڈز نہ ملنے پر فارغ کرنے سے صوبے میں بیروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہو رہاہے اور بے چینی بڑھ رہی ہے، مستزاد وفاقی حکومت کے ذمے صوبائی حکومت کے جو مالیاتی حقوق ہیں ان کی ادائیگی بھی نہیں ہو رہی ہے’ بجلی کا خالص منافع بھی نہیںمل رہا ہے۔ ضم شدہ اضلاع کے ترقیاتی کاموں اور سابق فاٹا کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی کا بوجھ الگ سے پڑا ہے، صوبہ ایک دہائی سے زائد عرصے تک دہشت گردی کاشکار ہونے کے باعث جداگانہ قسم کے حالات و مسائل کاشکار ہے۔ علاوہ ازیں مہنگائی کی بڑھتی شرح، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت میں کمی، آٹا بحران جیسے امور صوبائی معیشت کی کمر مزید خم کرنے کیلئے کافی ہیں۔ ان حالات میں صوبائی حکومت کے پاس اپنے اخراجات میں کمی اور چادر دیکھ کر پائوں پھیلانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت بشمول حزب اختلاف اور صوبے کی جملہ سیاسی قیادت وفاقی حکومت سے مشترکہ احتجاک کرے اور ماضی کی طرح جا کر وزارت خزانہ کے باہر دھرنا دیا جائے اور وزیر اعظم پر زور دیاجائے کہ وہ صوبے کو معاشی بحران سے بچانے کیلئے وفاق کے پلے سے اگر کچھ نہیں دے سکتے تو کم ازکم بجلی کا خالص منافع اوراس کی مد میں بھاری بقایاجات ہی دلوا دیں تاکہ صوبے کا بجٹ اندازوں کی بجائے حقیقی اعداد و شمار اور دستیاب وسائل کے مطابق بنانا ممکن ہوسکے۔

مزید پڑھیں:  عسکریت پسندوں سے مذاکرات؟