mazhar iqbal

کورونا اور معاشی کوما

کورونا کی وبا طوفان کی طرح اُٹھی اور اب غبار کی طرح بیٹھ رہی ہے۔ دنیا کے بیش تر ممالک لاک ڈائون کی اذیت کا شکار ہیں امیر غریب سب اس سے متاثر ہوئے ہیں، کورونا کے بعد کی صورتحال اور بھی بھیانک معلوم ہو رہی ہے۔ بڑی کمپنیوں کے مالکان ایک نئی کساد بازاری کا شکار ہو جائیں گے، طلب اور رسد کے معاملات سر اُٹھانا شروع ہو جائیں گے، ایئر لائنز اور شپنگ کمپنیاں بدتر حالات میں ہیں۔ ٹریول ایجنسیاں بھی شٹر ڈائون ہیں، دنیا میں پہلے جب غیرمعمولی صورتحال بنتی تھی تو لوگ یورپ کی طرف بھاگتے تھے مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔ حسن اتفاق دیکھئے کہ وہاں کے دل دہلا دینے والے مناظر لوگ اپنی اپنی اسکرین پر دیکھ رہے ہیں۔ آپ یوں سمجھئے کہ تقریباً ایک سال تک لوگ سینٹرل یورپ جاتے ہوئے ہچکچائیںگے۔
ٹریول انڈسٹری سے متعلق جتنے بھی شعبے ہیں وہ سب متاثر ہوں گے، دنیا کی ٹریول انڈسٹری کو ایک طرف رکھیے جو کورونا نہیں تھا تو ہمارے ملک میں آدھا درجن جہاز گراؤنڈ ہو گئے تھے تو آپ خود سوچئے کہ کورونا کے بعد کیا معاملات ہوں گے؟ دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک امریکا اور یورپ کے جولاہے والی گلی کا کردار ادا کرتے ہیں، سردست جو معلومات میسر ہیں ان کے مطابق ہزاروں پاکستانی کارخانہ مالکان بینک دیوالیہ کی طرف جا سکتے ہیں، ہزاروں آرڈر منسوخ ہو چکے ہیں ان کارخانوں سے وابستہ افراد بیروز گاری کی فوج ظفر موج میں شامل ہو جائیں گے۔ مصائب قدرتی ہوتے ہیں اور کچھ انسان کی اپنی طرف سے ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جب لاک ڈائون ہوا تو ایک نیا جھگڑا شروع ہو گیا کہ غریبوں تک راشن کیسے پہنچایا جائے، یہی لاک ڈائون یورپ میں ہوا تو وہا ں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا کہ وہاں لوکل کونسل کا نظام موجود ہے، ہر شخص کی بنیادی معلومات ان کے کمپیوٹر میں محفوظ ہے حکومت نے لاک ڈائون ہوتے ہی لوگوں کے اکائونٹ میں رقم بھجوا دی، ہمارے ملک میں بلدیاتی نظام ہی نہیں ہے یہاں کے سیاستدانوں نے بلدیات کے نظام کو مضبوط نہیں ہونے دیا، آج آفت کے موقع پر حکومت کے پاس کوئی معلومات نہیں ہیں یہی فرق ہے۔ مشاہدہ کیا کہ لوگ اندر سے راشن بانٹ رہے تھے خیر یہ وقت تو گزر جائے گا تاہم آنے والا وقت اچھا نہیں ہے۔ آپ کو اچھی طرح یاد ہوگا جب دو تین دن کیلئے کراچی بند ہوتا تھا تو اربوں روپے کا نقصان ہوجاتا تھا اب ڈیڑھ مہینے سے اوپر ہو چلا ہے اور کراچی بند ہے۔ کبھی بچپن میں سنتے تھے کہ اگر ریل گاڑی کو حادثہ پیش آتا تھا تو کچھ لوگ موقع دیکھ کر مال لوٹنے لگ جاتے تھے کچھ یہی حال اس وقت آئی ایم ایف سے جڑے لوگوں نے پاکستانیوں کا کیا ہے، لوگ اپنے آپ کو بچانے اور راشن بھرنے میں مصروف تھے کہ ڈالر مہنگائی کا ایک طوفان آجائے گا، ہم ایک پنسل تراش سے لیکر تمام چیزیں امپورٹ کرتے ہیں۔ اب بات کرتے ہیں یورپ اور امریکا کی اس وقت امریکا میں تقریباً بیس ہزار سے زیادہ ہلاکتیں ہو چکی ہیں تقریباً کروڑ سے زیادہ افراد بیروزگار ہو چکے ہیں، امریکا دو ٹریلین ڈالر اپنے ریزرو فنڈ سے نکال چکا ہے بلکہ ایک نئی تصویر بنتی نظر آرہی ہے۔ کیا اس صورتحال کے بعد امریکا ہر مہینے چین کو بلین ڈالرز ٹی ٹی بلز کی مدد دینے پر آمادہ ہوگا؟ خود امریکا میں چین کیخلاف بھی آوازیں اُٹھ رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق پانچ ہزار امریکی چین پر مقدمہ درج کر رہے ہیں کہ یہ آفت چین کی طرف سے آئی ہے، اب اس نئے منظرنامے میں کئی معاملات سامنے آسکتے، چین کیساتھ تجارتی پابندیاں یا پھر امریکا اور یورپ کا نیا گٹھ جوڑ۔ یورپ کا سب سے بڑا مسئلہ افرادی قوت ہے کورونا کی وجہ سے وہاں پیداواری استعداد میں کمی فطری ہے۔ اٹلی نے باقاعدہ یورپی یونین سے مدد مانگ لی ہے تاہم یورپ نے اس درخواست پر کوئی خاص گرم جوشی نہیں دکھائی، کورونا کے بعد بہت سے یورپی ممالک کو اپنی امیگریشن پالیسی تبدیل کرنی ہو گی، جرمنی یورپ کا معاشی انجن ہے ہمہ وقت ہنرمند افرادی قوت کے مسئلے کا شکار رہتا ہے۔ کورونا کی وجہ سے جرمنی بھی متاثرین میں شامل ہوگا، تادم تحریر تقریباً اسی فیصد ممالک میں لاک ڈائون جاری ہے جب لاک ڈائون مکمل طور پر ختم ہوگا تو کاروبار ی سرگرمیوں کے اعداد وشمار سامنے آئیں گے۔ اس موقع پر عرب ممالک کی خاموشی معنی خیز ہے تیل کی مسلسل گرتی ہوئی قیمت عرب ممالک کیلئے پریشانی کا باعث ہے، کورونا سے پہلےAuto Bybredٹیکنالوجی کی وجہ سے تیل پیدا کرنے والے ممالک کے ابرو تن گئے تھے اور رہی سہی کسر کورونا نے پوری کردی۔ گزشتہ دنوں ایک امریکی سینیٹر نے سعودی عرب کو واشکاف اندار میں دھمکایا کہ مزید تیل پیدا نہیں کرنا ورنہ سعودیہ سے امریکی فوج کا انخلا ضروری ہوگا۔
(بشکریہ: اردو نیوز)

مزید پڑھیں:  اک نظر ادھربھی