2 207

کورونا کی آڑ میں کشمیر کو فلسطین بنانے کا منصوبہ

پوری دنیا اس وقت کورونا وائرس نامی وبائی بیماری کی زد میں آگئی ہے۔ اس بیماری سے چار لاکھ کے قریب ہلاک جبکہ 28لاکھ سے زائد صحت یاب بھی ہوئے ہیں۔ بھارت میں بھی دولاکھ کے قریب افراد اس بیماری میں مبتلا ہوئے اور ان میں سے پانچ ہزار سے زائد ہلاک ہوئے ہیں۔ بھارت ہی کے زیرانتظام علاقہ جموں کشمیر میں 2500کورونا کے مثبت کیسز درج ہوئے جن میں سے 1900سے زائد کیسز کشمیر جبکہ 600 سے زائد کیسز جموں صوبے سے درج کئے گئے۔ ان میں سے 900افراد صحت یاب بھی ہوئے جبکہ تادم تحریر 30افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اعداد وشمار پر نظر ڈالی جائے تو صوبہ کشمیر کے رہنے والے لوگوں کو کورونا سے بھی بڑے مسائل اس وقت درپیش ہیں جن سے وہ بیک وقت نبردآزما ہیں اور جو کورونا ختم ہونے کے بعد بھی موجود رہیں گے۔
گزشتہ سال پانچ اگست کو جموں کشمیر کو بھارتی آئین کے تحت دی جانیوالی خصوصی پوزیشن کو منسوخ کیا گیا تھا اور اس پوزیشن کو ختم کرنے کا جواز پیش کرتے بھاجپا نے کہا تھا کشمیر میں اس سے عسکریت کا خاتمہ اور ریاست کو ترقی کے نئے راستے پر لے جائے گی۔ خصوصی پوزیشن کے خاتمے سے تو پتا چلا کہ کس طرح کی ترقی ہوئی لیکن جو اس کے خاتمے کے متعلق کشمیریوں کو تحفظات تھے بالکل سو فیصدی سچ ثابت ہو رہے ہیں۔ حریت پسند لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے بھی کہا تھا کہ کشمیر میں یہ سب مسلم آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کا منصوبہ ہے اور ہوا بھی یہی۔ موجودہ بھاجپا سرکار نے اب کشمیر میں اسرائیلی طرز پر غیرریاستی ہندؤں کو بسانے کا کام شروع کر دیا ہے اور اس کی بنیاد خصوصی پوزیشن کی منسوخی سے کی گئی۔ مئی کو جموں کشمیر انتظامیہ کی جانب سے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کیلئے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ اس سے قبل ہی مئی کے پہلے ہفتے میں جموں کشمیر تنظیم نو قانون (2019) میں موجود شقوں کے مطابق ان لوگوں کیلئے قواعد وضوابط واضح کئے گئے جو یہاں کی شہریت اور نوکریاں بھی حاصل کر سکتے ہیں یعنی اب ریاست سے باہر کا کوئی بھی شخص جموں کشمیر میں کسی بھی جگہ زمین باآسانی خرید سکتا ہے اور وہاں رہ بھی سکتا ہے۔ مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی نے اس ڈومیسائل قانون کی سخت الفاظ میں مخالفت کی ہے اور یہ صرف حسب دستور مذمت تک ہی محدود رہی۔ پوری دنیا میں او آئی سی ایک ایسی نام نہاد مسلم تنظیم جو لگتا ہے صرف خیرمقدم، مذمت اور مخالفت یا تعریف کرنے کیلئے بنائی گئی ہو۔ خیر اب مسئلے پر ہی بات کرتے ہیں، بھارتی زیرانتظام جموں کشمیر بھارت کا سب سے بڑا مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ کشمیر کی کل آبادی 75لاکھ کے قریب ہے اور اسی طرح سے جموں صوبے کی آبادی 55لاکھ تک ہوگی۔ جموں ہندو اکثریتی علاقہ جو شروع میں خصوصی پوزیشن کی منسوخی پر پرجوش دکھائی دے رہا تھا لیکن اب اس کے نتائج سامنے آتے ہی یہاں کے ہندو سیاسی لیڈر بھی بھاجپا کے اس فیصلے سے بیزار ہیں اور وہاں کئی احتجاجی مظاہرے بھی سیاسی جماعتوں اور طلبہ تنظیموں کی جانب سے کئے گئے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کشمیر میں پرتشدد حالات ہونے کی وجہ سے غیرریاستی لوگوں کا رخ جموں کی جانب ہی رہے گا اور سب سے زیادہ نقصان اس فیصلے سے نوکریوں اور جائیداد کے معاملے میں جموں والوں ہی کا ہوگا۔ اس قانون کو بنانے کیساتھ ہی مقامی انتظامیہ نے دس ہزار نوکریوں کا اعلان کیا۔ جس کا واحد مقصد یہ ہے کہ یہاں کے مقامی لوگ نئے قانون کو قبول کریں کیونکہ انہیں بھی کسی بھی نوکری کیلئے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ پیش کرنا لازمی ہے۔
گزشتہ سال پانچ اگست سے یہاں ان منصوبوں کے علاوہ اسمبلی نشستوں کی نئی حد بندی متعین کرنے کا کام بھی شروع کیا جا چکا ہے۔ جس کیلئے حد بندی کمیشن بھی بنا لیا گیا ہے۔ اس کے تحت جموں میں اسمبلی نشستوں کا اضافہ کرنا ہے تاکہ وہاں کی اسمبلی نشستوں کو کشمیر کی نشستوں کے برابر کر کے ایک ہندو کو وزیراعلی بنایا جائے اور اسمبلی میں پھر ہندو نظریات کو جموں کشمیر میں عملی جامہ پہنانے میں آسانی ملے گی۔ اسی طرح کچھ سیٹیں گجر بکروال طبقے کیلئے مخصوص رکھی جائیں گی اور اسمبلی میں مجبوری کے وقت ان کا ساتھ حاصل کیا جائے گا۔ اسی طرح سے کشمیر میں اگر کوئی اسمبلی سیٹ نئی بنائی گئی تو وہ بھی ایسے علاقے میں بنائی جائے گی جہاں غیرریاستی ہندؤں کو بسایا جائے گا۔ جموں میں موجود سیاسی جماعتوں کی جانب سے ہمیشہ سے یہ شکایت رہی ہے کہ اسمبلی میں قبضہ کشمیر کا ہی رہا ہے اور وزیراعلی انہی کا ہوتا ہے لیکن حقیقت میں وہ دلی کیلئے ایک ایجنٹ کی طرح کام کرتا ہے۔ اب جبکہ ان تمام منصوبوں پر کام جاری ہے اور دلی کو بھی ان منصوبوں پر کام کرنے کیلئے کورونا وائرس کا پردہ ملا ہے۔ دوسری جانب سے وادی میں ان منصوبوں کی کوئی مذمت بھی نہیں کی جا رہی کیونکہ ایک طرف حریت پسند قیادت جیلوں میں ہے اور دیگر نام نہاد مین اسٹریم لیڈران جو پانچ اگست سے جیلوں میں بھرے گئے تھے کو اسی شرط پر رہا کیا گیا ہے کہ وہ مرکزکی جانب سے لئے گئے فیصلوں کیخلاف کوئی بھی احتجاج نہیں کریں گے۔ دوسری جانب سے مسلم دنیا میں پاکستان اور ترکی کو چھوڑ کر کشمیر کیلئے کسی نے ابھی تک آواز نہیں اُٹھائی اور وجہ یہی ہے کہ بھارت ان ممالک کیلئے ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ مختصر یہ کہ آج تک پاکستان کے علاوہ کشمیر کیلئے ان ممالک نے کیا بھی کچھ نہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کشمیریوں نے آج تک تحریک حریت کی جدوجہد خود ہی چلائی ہے اور آگے بھی خود ہی جاری رکھنی ہوگی۔ (بشکریہ : جسارت)

مزید پڑھیں:  ''چائے کی پیالی کا طوفان ''