1 162

اور پھر جون آن پہنچا

اس وقت پاکستان کے مختلف علاقوں میں محدود پیمانے کے لاک ڈاؤن جاری ہیں مگر کیا اب اس سب کیلئے بہت دیر نہیں ہو گئی؟ جون کے پہلے ہفتے میں کچھ ایسا ہوا کہ اس نے فروری سے پھوٹنے والے کورونا وائرس کے حوالے سے ہمارے تمام تر خیالات کو یکسر بدل کے رکھ دیا۔ پچھلے دو ہفتوں میں اتنی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جتنی کہ پچھلے تین ماہ میں نہیں ہوئیں۔ آئیے ان میں سے دو اہم ترین چیزوں پر نظر ڈالتے ہیں۔ مارچ میں وزیراعظم عمران خان نے یہ بیانیہ اپنایا کہ کورونا وائرس اتنا بھی خطرناک نہیں جتنا کہ اسے سمجھا جا رہا ہے۔ اب آخر انہوں نے یہ بیانیہ کس بنیاد پر اپنایا، یہ معلوم نہیں۔ یہی وہ بیانیہ تھا جس نے آج ہمیں اس نہج تک پہنچا دیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ وزیراعظم صاحب نے اس وبا سے متعلق کسی بھی قسم کا بیانیہ اپنانے سے پہلے اپنے قریبی رفقاء سے معاملے کی سنگینی کے حوالے سے مشورہ لیا ہو۔ مارچ کے مہینے میں جب تک ایوان وزیراعظم میں اس وبا سے متعلق شکوک وشبہات دور ہوئے تب تک سندھ کے متحرک وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ کی جانب سے تالہ بندی اور ٹیسٹنگ سمیت کئی موزوں اقدامات اُٹھا چکے تھے۔ ان کا اس وبا کیخلاف ردعمل خاصا بروقت اور جارہانہ تھا، یہ وہ وقت تھا جب اس وائرس کا چین میں زور ٹوٹ چکا تھا اور یہ اٹلی اور سپین میں لوگوں کی جانیں نگلنے میں مصروف تھا۔ اس وقت تک دنیا بھر میں وائرس سے متعلق بازگشت سنائی دے رہی تھی اور اس کی خبریں ہماری سرحدیں پھلانگ کر ہمارے نیوز رومز میں ڈیرہ جما چکی تھیں۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا مگر اس کے باوجود اسلام آباد میں بیٹھے ہمارے حکمرانوںکی غیرسنجیدگی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ مراد علی شاہ کی جانب سے لئے گئے بروقت اقدامات ذرائع ابلاغ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو رہے تھے۔ یہ تاثر کہ کورونا کیخلاف جنگ میں کراچی کا طرزعمل اسلام آباد سے بہتر رہا ہے، وفاقی حکومت کیلئے ہضم کرنا ممکن نہ تھا اور وزیراعظم کا گزشتہ ہفتے سندھ کے دورے کے دوران مراد علی شاہ سے ملاقات نہ کرنا اس تاثر کو مزید تقویت فراہم کر رہا ہے۔ اس ملاقات نہ کرنے کے پیچھے یقینا کئی اور وجوہات بھی ہوں گی البتہ اس کے پیچھے وزیراعظم کی جانب سے سندھ کی اپنائی گئی پالیسی پر کسی قسم کی حوصلہ افزائی یا رشک کرنے سے اجتناب برتنا اہم وجہ تھی۔ مارچ میں وزیراعظم صاحب نے اپنی لاک ڈاؤن کیخلاف پالیسی کو ایک نئے انداز میں پیش کیا اور اس سے عوام میں ایک خاص طرح کا تاثر پھیلا کر لاک ڈاؤن کے سبب ملک کی دگرگوں ہوتی معیشت کو بنیاد بنا کر ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دیا گیا۔ نتیجتاً حکومت کے اس عمل سے صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہ سیاسی رنگ اختیار کر گیا۔ اس کے کچھ ہی عرصہ بعد نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر کا قیام عمل میں لایا گیا اور اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے رفتہ رفتہ کووڈ19 کی پالیسی پر اپنا اثرانداز ہونا شروع کر دیا۔ عوام میں البتہ مجموعی تاثر اسی طرح برقرار رہا اور اسے مستحکم رکھنے میں اعلیٰ قیادت کی جانب سے پیغامات اور بیانات نے بھرپور کردار ادا کیا۔ اگرچہ اس سب میں بیماری کے خطرہ کا بھی دبے لفظوں میں بتایا جاتا رہا البتہ اس سب سے عوام میں اسی تاثر نے فروغ پایا کہ کورونا وائرس کوئی بہت خطرناک بیماری نہیں۔ وہ لاک ڈاؤن جو بغض میں نافذ کیا گیا تھا مئی تک انتقاماً اُٹھا لیا گیا۔ حکومت نے اس کیخلاف ایسا بیانیہ تیار کر لیا تھا کہ ملک کو ان پابندیوں سے آزاد کرانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ مساجد کو تو پہلے ہی کھول دیا گیا تھا اور پھر عید کی خریداری کیلئے بازار کھولنے کی بھی اجازت دیدی گئی اور آخر میں ٹرانسپورٹ کھولنے کی بھی اجازت مل گئی۔ گویا سب کچھ ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔ مگر حقیقت اس کے برعکس تھی، مئی کا مہینہ اسی بیانئے کیساتھ گزر گیا۔ حکومت نے یہ تسلی دی کہ اگرچہ کیسوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے البتہ شرح اموات اب بھی قابو میں ہی ہیں اور یہ بھی کہ حکومت نے اس بحران سے نمٹنے کیلئے تمام تر ضروری طبی سہولیات کا بندوبست کر دیا ہے اور این ڈی ایم اے کی جانب سے مریضو ں کے متوقع اضافے سے نمٹنے کیلئے مناسب مقدار میں ساز وسامان کا بھی بندوبست کر لیا گیا ہے۔ بلاشبہ لوگوں کو ماسکس پہننے اور احتیاطی تدابیر اپنائے رکھنے کی ہدایت کی جاتی رہی تھی مگر اس کے باوجود حکومت کے مطابق سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہی تھا۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ہم وائرس کو شکست دینے کیلئے بالکل تیار تھے اور پھر جون آن پہنچا اور ہم پر اُفتاد آپڑی، اس سے دو باتیں کھل کر سامنے آگئیں۔ پہلی یہ کہ کورونا وائرس نے ہماری ایسی کمر توڑی کہ ”سب کچھ قابو میں ہے” کے بیانئے کے پرخچے اُڑ گئے اور دوسری یہ کہ اس نے حکومت کو ایک قدم پیچھے دکھیل کر لاک ڈاؤن کرنے کا وہی فیصلہ لینے پر مجبور کر دیا ہے جو اسے بہت پہلے ہی کر لینا چاہئے تھا۔ صرف دوہی ہفتوں میں صورتحال یکسر پلٹ چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق رمضان اور عید میںبرتی گئی بے احتیاطی تباہ کن ثابت ہوئی اور یہ اس وقت ہوا جب یہ وبا اپنے قدرتی چلن کے مطابق عروج کی طرف گامزن تھی اور اس کے نتیجے میں یہ وبا اب قابو سے باہر ہوگئی۔ کووڈ19ہر جگہ موجود تھا، سوشل میڈیا، ذرائع ابلاغ، خبروں اور ہسپتال کی قطاروں میں۔ یہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ ہر فرد کے جاننے والوں میں کوئی نہ کوئی ایسا شخص موجود تھا جو اس وبا سے متاثر ہو کر بیمار یا ہلاک ہوا ہو۔ پہلے بیانئے میں تبدیلی آئی اور پھر پالیسی میں، اب حکومت کے کرتا دھرتا اس وائرس کو صرف ایک ”معمولی زکام” نہیں سمجھتے، وہ اب اس خوش فہمی میں بھی نہیں ہیں کہ سب کچھ قابو میں ہے۔ مئی میں اپنی جوبن کی طرف گامزن وبا اب جون، جولائی اور اگست تک اسی ڈگر پر گامزن رہے گی۔ وہ ہسپتال جنہیں ممکنہ اضافی بوجھ سے نمٹنے کیلئے تیار بتایا جا رہا تھا اب مریضوں کی بہتات سے مفلوج ہو چکے ہیں اور حکومت اپنے تشکیل کردہ بیانئے سے پھر کر لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ اس وبا کے خوف اور موت کے ڈر نے عجیب طرح ہی ہماری توجہ پالیسی مسائل کی جانب مبذول کرائی ہے۔
(بشکریہ ڈان، ترجمہ: خزیمہ سلیمان)

مزید پڑھیں:  ملازمین اور پنشنرز کا استحصال ؟